کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 364
میں بیس پڑھتے تھے اور اس کے بعد چالیس پڑھنے لگے تھے اور بغیر اس تفصیل اور تصریح کے اجماع کے دعوے پر قدح یقیناً ثابت ہے۔اس لئے کہ جب یہ تسلیم ہے کہ اسود نے حضرت عمرؓکا زمانہ بے شک پایا ہے اور ان کے عمل کے بارے میں روایت میں کسی زمانے کی کوئی خصوصیت اور قیدمذکور نہیں ہے تو خودحنفیہ کے اصول المطلق یجری علی اطلاقہ(مطلق اپنے اطلاق پرجاری ہوتاہے)کے مطابق جب تک کسی معتبر دلیل سے کسی زمانے کی تخصیص ثابت نہ ہو جائے گی)یہ اطلاق اپنے حال پرباقی رہے گااورجب اطلاق اپنے حال پر باقی رہے گا تو بلاشبہ حضرت عمرؓ کا زمانہ بھی اس میں داخل ہوگااور اس کے بعد بیس پر’’اجماع‘‘اور اسی پر عمل کے’’استقرار‘‘دونوں دعوں کا بطلان ظاہر ہے۔ اسود کے اسی اثر کو مولانا مئوی نے اپنے مطلب کے موقع پر اس انداز میں پیش کیاہے۔لکھتے ہیں: ’’کوفہ میں اسودبن یزیدالمتوفی۷۵؁ھ چالیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔یہ واضح رہے کہ اسود حضرت عمرؓ،حضرت معاذؓ،حضرت ابن مسعودؓ،حضرت حذیفہؓ حضرت بلالؓ اور دوسرے کبار کے صحبت یافتہ تھے۔‘‘(رکعات ص۴) بتائیے ان سطروں سے مولانا کا منشاء اسو کی ان چالیس رکعتوں کی اہمیت ہی ظاہر کرنا ہے؟سوال یہ ہے کہ کیااس اہمیت سے فائدہ اٹھانی کا حق صرف مولاناہی کو ہے؟اہل حدیث کو یہ حق حاصل نہیں ہے؟اگر ہے تو پھر ہمیں کہنے دیجیے کہ اسودبن یزید کا یہ عمل زبردست قرینہ ہے اس بات کا کہ جن کبار صحابہؓکے وہ صحبت یافتہ تھے،کم ازکم وہ صحابہ بیس کی عدد کی خاص طور پرپابند نہ تھے اورنہ وہ اس پر متفق اور مجتمع تھے۔جیساکہ مولانا مئوی نے جضرت علیؓکے اثرپر