کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 363
اس کے علاوہ لیجیے ہم آپ کو تصریح دکھاتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عہد میں چھتیس رکعتیں پڑھی جاتی تھیں۔قیام اللیل المروزی ص۹۲ میں ہے: ان عمر بن الخطاب امرابیافامھم فی رمضان۔۔۔۔۔وکان یقرأ بھم خمس ایات وست اٰیات فی کل رکعۃ ویصلی بھم ثمانیۃعشر شفعاً یسلم فی کل رکعتین ’’یعنی حضرت عمرؓ نے حضرت ابی بن کعب کو تراویح کا امام مقرر کیا۔وہ لوگوں کو ہر رکعت میں پانچ چھ آیتیں پڑھاتے تھے اور چھتیس رکعتیں پڑھاتے تھے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے‘‘اس واقعہ کے راوی حسن بصری ہیں۔انہوں نے حضرت عمرؓ کا زمانہ نہیں پایا ہے،لیکن اوساط تابعین سے ہیں۔اس لیے اس روایت پر بھی زیادہ سے زیادہ جو کلام ہو سکتاہے وہ یہ کہ منقطع ہے اوریہ معلوم ہو چکا کہ حنفیہ کے نزدیک منقطع ہونا کچھ مضر نہیں ہے۔لہذا یہ روایت بھی حجت اور مقبول ہے۔ عہد فاروقی میں بیس ر کعت پر اجماع ہو جانے کے دعویٰ کے باطل ہونے کی تیسری دلیل اسودبن یزید نخعی کا اثر ہے جو چالیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔اس اثر کی نسبت مولانا مئوی لکھتے ہیں: ’’اسود نے حضرت عمرؓکا زمانہ بے شک پایا ہے۔لیکن روایت میں قطعاً اس کا ذکر نہیں ہے کہ اسو دعہد فاروقی میں چالیس پڑھتے تھے اور بغیر اس تصریح کے اجماع کے دعویٰ پر قدح ممکن نہیں ہے۔‘‘(رکعات ص۸۵) میں کہتا ہو ں کہ روایت میں قطعاً اس کا ذکر نہیں ہے کہ اسود عہد فاروقی