کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 362
امام ابوحنیفہ ؒکے نزد یک تو وہ مطلقاً مقبول ہے۔لہذا ان حضرات کے مسلک کی بنا پر۔تو اس اثر کا(یعنی یزیدبن رومان کے اثر کا)مرسل ہونا مضر نہیں ہے۔‘‘(رکعات ص ۶۴) لیجیے اب تو خود مولانا مئوی کی اعتراف واقرار کے مطابق ابن سیرین کی یہ روایت مطلقاً مقبول اور حجت ہے اور اس کا منقطع ہونا کچھ مضر نہیں ہے۔لہذا اس روایت سے احناف پر اہل حدیث کی حجت قائم اور الزام ثابت ہے۔منقطع کہ دینے سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔اگر کسی کو شبہ ہو کہ اہل حدیث کی نزدیک تو مرسل اور منقطع روایت حجت نہیں ہے۔پھر وہ اس روایت سے کیسے استدلال کر سکتے ہیں،تواس کا جواب یہ ہے کہ اہل حدیث اس روایت کوان احناف کے مقابلے میں الزاماًپیش کرتے ہیں جو عہدفاروقی میں بیس رکعت پراجماع ہو جانیکا دعویٰ کرتے ہیں اور احناف کی نزدیک ایسی روایت حجت اور مقبول ہے۔لہذاالزامی جواب کے لئے اہل حدیث کا استدلال بالکل صحیح ہے۔ اب مولانا مئوی کی اس بات کا کوئی وزن باقی نہیں رہ جاتا کہ منقطع ہو نے کے علاوہ جب تک یہ تصریح نہ دکھائی جائی کہ حضرت عمر کے عہد میں معاذاکتالیس پڑھتے تھے۔ اس لئے کہ ابن سیرین کی یہ شہادت اسی تقدیر پر تو منقطع ہے کہ حضرت معاذحضرت عمر ؓ کے عہد میں اکتالیس پڑھاتے تھے۔اگریہ صورت نہ ہو تب تو یہ منقطع ہی نہیں ہے اور جب منقطع ہونے کے باوجود احناف کی نزدیک یہ حجت اور مقبول ہے تو اب حضرت معاذؓ کا حضرت عمرؓکے عہدمیں اکتالیس رکعتیں پڑھانا بلاشبہ ثابت ہو جاتاہے اور جب یہ ثابت ہو جاتا ہے تو بیس پر اجماع کا دعویٰ آپ سے آپ باطل ہو جاتاہے۔