کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 359
میں الزاماً پیش کیا تو مولانا مئوی نے رخ پلٹ دیا اور وہی’’شہادت‘‘جو ابھی تک مقبول،معتبر اور قابل اعتماد تھی فوراً مجروح،مردود اور ناقابل اعتماد قرار پا گئی چنانچہ فرمانے ہیں: ’’اس کے بعد اب ان کو لیجئے جن کے نام آپ نے(یعنی مولانا مبارکپوری نے)لئے ہیں تو ان میں ا یک معاذ ابو حلیمہ ؒ ہیں جو اکتالیس رکعت پڑھتے تھے۔ان کا یہ عمل محمد بن سیرین نے نقل کیا ہے اور ابن سیرین کی پیدائش حضرت عمرؓ کے دس برس بعد ہوئی ہے لہذا انہوں نے اگر معاذ کو اکتالیس پڑھتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ عہد فاروقی کے بعد کا قصہ ہے اور اگر اپنی پیدائش سے پہلے کا واقعہ انہوں نے بیان کیا ہے تو یہ روایت منقطع ہے۔اس لئے جس سے انہوں نے اس کو سنا ہے اس کا نام نہیں لیتے اور منقطع ہونے کے علاوہ جب تک یہ تصریح نہ دکھائی جائے کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں معاذ اکتالیس پڑھاتے تھے،تب تک اجماع کے دعوی پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑ سکتا‘‘(رکعات ص ۸۵)۔ الغرض اب یہ روایت مولانا مئوی کی نظر میں معلول ہو گئی خیر اب ہم اس کا جواب عرض کرتے ہیں۔سنیئے!ابن سیرین نے اگر یہ کہا ہوتا کہ میں نے حضرت معاذ بن الحارث کو اکتالیس پڑھتے’’دیکھا‘‘ہے تب تو متعین تھا کہ وہ خاص عہد فاروقی کے بعد کا حال بیان کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت عمر کا زمانہ پایا ہے،لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت معاذ ابوحلیمہؓ لوگوں کو رمضان میں اکتالیس رکعتیں پڑھایا کرتے تھے:(ان معاذ ابا حلیمۃ القاری کا یصلی بالناس فی رمضان احدی واربعین رکعۃ قیام اللیل للمروزی ص ۹۱)تو یہ حضرت