کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 358
باطل ہونے کی جو دلیلیں دی ہیں وہ قابل قبول ہیں یا نہیں؟ابھی ہم نے عرض کیا کہ حضرت معاذ ابو حلیمہؓ اور اسود نخعی کے آثار کا تعلق پہلے دعوے یا دعوی کی پہلی شق سے ہے۔اس کے جواب میں مولانا مئوی نے جو کچھ فرمایا ہے اس کے پیش کرنے سے پہلے اس موقع پر ایک خاص بات کی طرف ہم ناظرین کی توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ کہ ان دونوں دعووں کے ابطال میں جو آثار و اقوال اہل حدیث کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں ان سب کو مولانا مئوی نے خود بھی اپنی اسی کتاب کے شروع میں پیش کیا ہے۔لیکن یہ ان کی انشا پردازی کا کمال کہیے یا گروہی عصبیت اور معاندانہ ضد۔کہ دونوں جگہوں میں ان کا برتاؤ ان آثار کے ساتھ بالکل مختلف بلکہ ایک دوسرے کے معارض ہے۔یہی آثار جب مولانا مئوی نے خود اپنے مطلب کے موقع پر پیش کئے ہیں تو وہاں زور قلم اور جوش بیان کا یہی حال ہے کہ ان آثار کے ثبوت میں کہیں سے کوئی جھول محسوس نہیں ہوتا اور پڑھنے والے کے ذہن میں ان کی بابت کسی کمزوری اور’’علت‘‘(باصطلاح محدثین)کا وہم تک نہیں گذرتا،مگر یہاں پہنچ کر وہی آثار و اقوال جب اہل حدیث نے اپنی تائیدمیں پیش کیے تو مولانا مئوی کو ان کی ساری کمزوریاں اور’’علتیں‘‘(باصطلاح محدثین)ایک ایک کر کے یاد آ گئیں اور لگے رجال میں اپنی’’پوری مہارت‘‘کا ثبوت دینے۔چنانچہ یہی حضرت معاذ کا اثر ہے جس کو مولانا مئوی نے اپنے استدلال کے موقع پر ان لفظوں میں پیش کیا ہے: ’’معاذ ابو حلیمہ صحابی ہیں ان کی شہادت حرہ کے دن ہوئی ہے ان کے باب میں ابن سیرین کی شہادت ہے کہ وہ رمضان میں اکتالیس رکعتیں پڑھایا کرتے تھے‘‘۔(رکعات ص ۲) لیکن ابن سیرین کی اسی شہادت کو جب محدث مبارکپوری نے حنفیہ کے مقابلے