کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 357
علاوہ خود جو آثار پیش کئے ہیں ان میں بعض وہ بھی ہیں جن پر عمل کرنے والوں کا عہد فاروقی میں ہونا مولانا مئوی کو بھی تسلیم ہے۔مثلاً حضرت معاذبن الحارث ابو حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ(جوصحابی ہیں اور ۴۱ رکعتیں لوگوں کوپڑھایا کرتے تھے)اور اسودبن یزیدنخعی ؒ(جو عہد فاروقی میں موجود تھے یہ چالیس رکعتیں پڑ ھتے تھے)انہی اقوال وآثار کی بنا پرمحدث مبارک پوری نے لکھا ہے:فین الاجماع علی عشرین رکعۃ واین الاستقرارعلی ذالک فی الامصار انتھیٰ یعنی جب حضرت عمرؓ کے عہد کے لوگوں سے بھی بیس کے علاوہ پڑھنا ثابت ہے تو پھر خالص بیس رکعت پر اجماع اور اسی پر عمل کا استقرار(ٹھہراو)کہاں رہا؟ بالفاظ دیگر عینی کے نقل کئے ہوئے اکثر اقوال سے بیس پر’’استقرار عمل‘‘کا دعویٰ باطل ہوتا ہے اور حضرت معاذ ابو حلیمہ اور اسود نخعی کے آثار سے اسی کے ساتھ ساتھ عہد فاروقی میں’’اجماع‘‘ہو جانے کا یہ دعوی بھی باطل ہوتا ہے اس طرح دعوی کی دونوں شقوں کا بطلان ثابت ہو جاتا ہے۔اس کے باوجود اگر کسی کو’’بیان پڑھ کر سوال از آسمان جواب از ریسماں ولی مثال یاد آ جائے ‘‘تو اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ یہ اس کا قصورِفہم ہے یا عوام کے جذبات سے کھیلنے کے لئے محض ایک معاندانہ پروپیگنڈا ہے۔ مولانا مئوی نے’’ہوشیاری‘‘یہ کی ہے کہ استقرار عمل کے دعوی پر جو اعتراض ہے اس کو تو بالکل حذف کر دیا ہے اور عہد فاروقی میں اجماع ہو جانے کے دعوی پر جو اعتراض ہے بس اسی کو لے لیا اور عینی کے نقل کئے ہوئیے اقوال کے ساتھ اس کو جوڑ کر پھبتی اڑا دی کہ دیکھو جی سوال کچھ ہے اور جواب کچھ۔ ع بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست آیئے اب ہم آپ کو بتائیں کہ محدث مبارکپوری نے مذکو ہ بالا دونوں دعووں کے