کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 356
نے’’ہاتھ کی صفائی‘‘کے اسی ہنر سے کام لیاہے جس کے وہ عادی ہیں۔یعنی محدث مبارک پوری کی عبارتوں کو کاٹ چھانٹ کر پیش کیا اور اس کے بعد پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ فقرہ بھی چست کر دیا کہ’’مولانا یہ بیان پڑھ کر مجھے سوال از آسماں جواب از ریسماں والی مثل یاد آ گئی ‘‘۔اس کو کہتے ہیں چہ دلاور است … کہ بکف چراغ وارد۔ سنیئے۔اجماع کا یہ دعوی دراصل دو دعووں پر مشتمل ہے۔یا یوں کہئے کہ اس کی دو شقیں ہیں: (الف) قد وقع الاجماع علی عشرین رکعۃ فی عھد عمررضی اللّٰه عنہ(حضرت عمر کے عہد میں بیس رکعت پر اجماع ہو گیا)۔ (ب) واستقر الامر علی ذلک فی الامصار(اور بلاد اسلامیہ میں اسی اجماع پر یعنی بیس رکعت پر عمل ٹھیر گیا)۔ محدث مبارکپوری نے ان دونوں دعووں کو باطل قرار دیا ہے۔فرماتے ہیں: قلت دعوی الاجماع علی عشرین رکعۃ واستقرار الامر علی ذلک فی الامصار باطلۃ جدا۔ (یعنی بیس رکعت پر اجماع ہو جائے کا دعوی بھی باطل ہے اور بلاد اسلامیہ میں اسی پر عمل کے ٹھہر جانے کا دعوی بھی باطل ہے)۔اور ان دونوں دعووں کے بطلان کے ثبوت میں انہوں نے ان اقوال اور اعمال کا حوالہ دیا ہے جو اس سے پہلے تحفت الاحوذی میں تفصیل کے ساتھ نقل ہو چکے ہیں۔ان میں کچھ تو وہ ہیں جو عینی نے پیش کیے ہیں اور کچھ آثار ایسے ہیں جن کو محدث مبارکپوری ؒ نے دوسرے حوالوں سے نقل فرمایا ہے۔عینی نے جو اقوال نقل کئے ہیں ان میں اکثر تو بے شک وہی ہیں جو عہد فاروقی کے بعد کے ہیں،لیکن محدث مبارکپوری ؒ نے اس کے