کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 355
بیس رکعت پر اجماع کی بحث کا جواب مولانا حبیب الرحمن اعظمی مئوی لکھتے ہیں: ’’مولانا عبدالرحمن نے تحفت الاحوذی جلد ۲ ص ۷۶ میں یہ بحث اٹھائی ہے اور لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے جو یہ دعوی کیا ہے کہ’’حضرت عمر کے عہد میں بیس پر اجماع ہو گیا ہے اور بلاد اسلامیہ میں اسی پر عمل قرار پا گیا ‘‘۔یہ بالکل باطل ہے اور باطل ہونے کی دلیل مولانا نے یہ دی ہے کہ عینی نے بیس کے علاوہ بہت سے قول نقل کیے ہیں … الی ان قال … اور اسود چالیس رکعت پڑھتے تھے تو اجماع کہاں سے ہوا؟ مولانا کا یہ بیان پڑھ کر مجھے سوال ازآسماں جواب از ریسماں والی مثل یا د آگئی اس لئے کہ جس نے اجماع کا دعوی کیا ہے اس نے خود آپ کے اقرر کے مطابق حضرت عمرؓ کے عہد میں اجماع واقع ہونے کا دعوی کیاہے اور عینی نے جو اقوال نقل کئے ہیں وہ سب ان لوگوں کے ہیں جو عہد فاروقی کے بعد کے ہیں۔(رکعات ص ۸۴)۔ ج:ناظرین کو یاد ہو گا کہ گذشتہ مباحث میں ہم کو مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی اس افسوسناک حرکت پر بار بار تنبیہ کرنی پڑی ہے کہ وہ عبارتوں کے نقل کرنے کے بارے میں اپنے تقدس اور دیانت و امانت کا کچھ بھی خیال نہیں کرتے۔اب مزید افسوس کے ساتھ پھر اس حقیقت کے اظہار پر مجبور ہیں کہ یہاں بھی مولانا نے وہی حرکت کی ہے۔محدث مبارک پوری کی بات پر جب دیانت داری کے ساتھ اعتراض و تنقید کی کوئی گنجائش مولانا مئوی کو نظر نہ آتی تو پھر انہوں