کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 35
یجرھا مجری سائر النوافل ثم بین العذر فی الترک(مراتی الفلاح شرح نور الایضاح)۔ یعنی تراویح کی نماز باجماعت سنت کفایہ ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان اور جماعت کے ساتھ گیارہ رکعتیں باوتر لوگوں کو پڑھائی تھیں۔ (11) مولانا شوق نیموی نے آثار السنن صفحہ 2/51 میں ایک عنوان مقرر کیا ہے باب التراویح بثمان رکعات۔اور اس کے ذیل میں سب سے پہلی حدیث یہی حضرت عائشہ والی ذکر کی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کو بھی تسلیم ہے کہ اس حدیث کا تعلق تراویح سے ہے یہ کہنا غلط ہے کہ اس حدیث کا تعلق صرف تہجد سے ہے تراویح سے نہیں ہے۔بالفاظ دیگر وہ یہ مان رہے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت بلاوتر(اور مع وتر گیارہ رکعت)تراویح باسناد صحیح ثابت ہے۔ (12) مولانا عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں: ''آپ نے(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)تراویح دو طرح ادا کی ہے۔ایک بیس رکعتیں بے جماعت … لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے۔اس کی تفصیل میں نے اپنے رسالہ تحفة الاخیار فی احیاء سنت الابرار میں اچھی طرح کی ہے۔دوسری آٹھ رکعتیں اور تین رکعت وتر باجماعت اور یہ طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تین راتوں کے علاوہ کسی رات میں منقول نہیں ہے اور امت پر فرض ہوجانے کے خوف سے بہ لحاظ شفقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اہتمام نہیں کیا۔''(مجموعہ فتاو یٰ جلد 1 ص 354) واضح رہے کہ مولانا عبدالحئی نے بیس رکعت والی کو ضعیف قرار دیا ہے،لیکن آٹھ رکعت والی روایت کو ضعیف نہیں کہا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی صحیح حدیث سے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آٹھ ہی رکعات پڑھنا ثابت ہے۔