کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 349
’’اوصاف عالیہ‘‘کے باوجود مولانا عبدالرحمٰن اس حدیث سے جو اسحاق کی روایت کی ہوئی ہے تائید حاصل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے مگر ابراہیم بن عثمان وحمادبن شعیب کی روایتوں پر جرح کرتے ہیں اورقابلِاستدلال ولائق اعتبار نہیں سمجھتے۔ع ناطقہ سربگریباں ہے کہ اسے کیاکہیے(رکعات ص۷۷) ج: مولانا مئوی کے اعتراض کی حقیقت اور اس کا جواب سمجھنے کے لیے پہلے اس بات کاسمجھ لینا ضروری ہے کہ محدث مبارک پوری نے اسحاق بن ابی فردہ کی اس روایت کو کس موقع پر اور کس مقصد سے پیش کیاہے؟قصہ یہ ہے کہ اہل حدیث اپنے اس دعوے کی ثبوت میں کہ مقتدیوں کو بھی سورہ فاتحہ ضرور پڑھنا چاہیے۔حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی وہ روایت بھی پیش کرتے ہیں جس میں مذکورہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے فرمایا ہے:لا تفعلوا الا بام القراٰن فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بھا۔(اسکاترجمہ اور حوالہ ابھی قریب ہی گذرا ہے) مولانا شوق نیموی مرحوم نے آثار السنن میں اس روایت کو تین وجہوں سے معلول ٹھہرایا ہے۔منجملہ ان کی ایک وجہ یہ بتائی ہے کہ اسکی سند میں مکحول واقع ہیں جو مدلس ہیں اورانہوں نے اس روایت کو محمود بن ربیع سے لفظ’’عن‘‘کے ساتھ بیان کیا ہے۔ علماء جانتے ہیں کہ آثار السنن کے جملہ دلائل وایرادات کے مفصل اور مستقل جواب میں تو محدت اعظم حضرت علامہ مبارک پوری رحمۃاللہ علیہ نے ایک الگ کتاب ہی لکھی ہے جس کا نام’’ابکارالمنن فی تنقیدآثارالسنن‘‘ہے نیموی کے اعتراضوں پر تفصیلی گفتگو تو ابکار المنن ہی میں کی گئی ہے۔چنانچہ ان تینوں وجوہ اعلال کا جواب بھی بسط کے ساتھ اسی کتاب میں دیا گیا ہے۔مگر تحقیق الکلام