کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 348
کا مظاہرہ کرنے کے اور کیاہو سکتا ہے؟ تمام بن نجیح اور جمیع بن عمیر تیمی پر کی گئی جرحوں کا تذکرہ جو یہاں ضمناً آگیا ہے اس سے ناظرین کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ہماری یہ بات غلط نہیں ہے کہ مولانا مئوی نے ان راویوں کی نسبت تصویر کا ایک رخ پیش کر کے افسوس ناک اور خلاف دیانت حرکت کا ارتکاب کیا ہے۔حالانکہ توثیق کے مقابلے میں ان پر کی گئی جرحوں کا پّلہ بھاری ہے۔ مولانا مئوی کے الزامی معارضہ کا جواب حمادبن شعیب اور ابو شیبہ ابراھیم بن عُثمان کی روایتوں کو محدث مبارک پوری اورحضرت حافظ صاحب غازی پوری نے امام بخاری کی جرحوں کی وجہ سے(جس کی تائیددوسرے ناقدین کی جرحوں سے بھی ہوتی ہے جیسا کہ ہم بتا چکے)رد کردیا ہے۔اس پرمولانا نئوی کو غصہ تو آنا ہی تھا،مگرماسواے غصہ ظاہر کرنے کے مولانا سے اس کا کوئی تحقیقی جواب بن نہ پڑا تو جان چھڑانے کے لیے ایک تدبیر تو یہ اختیارکی کہ اصل موضوع سے ہٹ کر دوسرے دوسرے راویوں کو موضوع بحث بنایااوردوسری تدبیر یہ کی ہے کہ ایک الزامی معارضہ پیش کیا ہے۔پہلی تدبیرکاجو حشر ہوا وہ تو معلوم ہی ہو چکا۔اب ان کی دوسری تدبیر کا حشر بھی دیکھیے،مگرپہلے اس معارضہ کی تفصیل خود مولانا ہی کی زبانی سنیے۔لکھتے ہیں: مولانا عبدالرحمٰن نے تخقیق الکلام ص۴۶/۱ میں اپنی ایک دلیل کی تائیدمیں عبداللہ بن عمروبن الحارث کی روایت پیش کی ہے اورعبداللہ سے خود مولانا کی نقل کے مطابق اسحاق بن عبداللہ بن ابی فردہ نے اس کو راویت کیا ہے۔اب آیئے اور کتب رجال میں اسحاق کا حال پڑھیے(اسحاق کی حق میں محدثین کی جرحیں نقل کرنے کے بعد مولانا مئوی لکھتے ہیں)’’حیرت ہے کہ ان تمام