کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 345
ایسا ہو سکتا ہے لہذا محض رسالہ رفع الیدین میں تمام کی روایت ذکر کر دینے سے ان کی جرح(فیہ نظر)پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نیز تمام بن نجیح پر دوسرے ناقدین نے جو سخت سخت جرحیں کیں ہیں(جن کو مصلحتاً آپ نے ذکر نہیں کیا ہے)ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تمام کی یہ روایت امام بخاری ؒ نے استشہاد و اعتبار کے لئے نہیں ذکر کی ہے۔چنانچہ ابن عدی نے کہا ہے وعامۃ ما یرویہ لا یتابعہ علیہ الثقات وھو غیر ثقۃ(یہ خود بھی غیر ثقہ ہے اور جو روایتیں دوسروں سے بیان کرتا ہے ان میں اکثر ایسی ہیں جن کی دوسرے ثقات تائید نہیں کرتے)۔امام ابو حاتم نے اس کو منکر الحدیث اور ذاھب الہدیث کہا ہے۔ابن حبان نے کہا ہے روی اشیاء موضوعۃ عن الثقات کانہ المتعمد لھا(میزان الاعتدال ص ۱۶۷ ج ۱)یعنی اس نے بہت سی موضوع حدیثیں ثقات سے روایت کی ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ باتیں اس نے خود گھڑی ہیں۔(بتائیے جو راوی متہم بالوضع ہو اس کی روایت بھی استشہاد و اعتبار کے قابل ہو سکتی ہے؟امام احمد نے فرمایا ہے ما اعرفہ(میں اس کو نہیں جانتا)ابوزرعہ نے ضعیف کہا ہے۔امام نسائی نے کہا:لا یعجبنی حدیث(مجھے اس کی حدیثیں پسند نہیں)۔عقیلی نے کہا یحدث بمناکیر(منکر حدیثیں بیان کرتاہے)۔ابو داؤد نے کہا لہ احادیث مناکیر(اس کی بہت سی حدیثیں منکر ہیں)مولانا مئوی کی دیانت دیکھئے۔کہ تہذیب التہذیب میں ان کو یہ تو نظر آ گیا کہ تمام کو بزار نے صالح حدیث کہا ہے،مگر یہ نظر نہ آیا کہ اسی جگہ یہ بھی لکھا ہوا ہے وقال البزار لیس بقوی(بزار نے کہا ہے کہ یہ قوی نہیں ہے) مولانا مئوی کا دوسرا اعتراض اور اس کا جواب:جمیع بن عمیر تیمی کی نسبت توثیق نقل کرنے کے بعد مولانا لکھتے ہیں: