کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 344
سب کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔حالانکہ ان میں بیشتر ایسے ہیں جن کی توثیق کے مقابلے میں ان پر کی گئی جرحوں کا پلہ بھاری ہے۔اس لئے اس طرح بھی مولانا مئوی کے اعتراضوں کا بطلان اچھی طرح ثابت کیا جا سکتا تھا مگر چونکہ مولانا مئوی کی یہ گفتگو اصل موضوع سے ہٹی ہوئی ہے اور ہم باصول مناظرہ اپنی گفتگو اصل موضوع پر ہی مرکوز رکھنا چاہتے ہیں اس لئے جواب کی اس صورت کو ہم نے اختیار نہیں کیا۔ہاں تمام بن نجیح اور جمیع بن عمیر تیمی کے ذکر کے سلسلے میں مولانا نے خاص طور سے دو اعتراض پیش کئے ہیں اس لئے ان کے ان دونوں اعتراضوں کا جواب ہم دے دینا چاہتے ہیں۔ مولانا مئوی کا پہلا اعتراض اور اس کا جواب:تمام بن توثیق نقل کرنے کے بعد مولانا مئوی لکھتے ہیں’’اور اس سے زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ خود امام بخاریؒ نے رسالہ رفع الیدین میں تمام کی روایت سے تعلیقاً ایک اثر نقل کیا ہے سوال یہ ہے کہ جب ایسا راوی اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ اس سے استشہاد یا اعتبار بھی کیا جا سکے تو امام بخاری نے اس کی روایت کیوں ذکر کی؟(رکعات ص ۷۴) ج:آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ امام بخاریؒ نے ہمیشہ کسی روایت کو استشہاد و اعتبار ہی لئے ذکر نہیں کرتے بلکہ کبھی اس مقصد سے بھی ذکر کر دیتے ہیں کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اس روایت کی ایک سند یہ بھی ہے چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں: قال ابوعبداللّٰه و حدیث ابی صالح عن ابی الدرداء مرسل لا یصح اانما اوردناہ المعرفۃ والصحیح حدیث ابی ذر(بخاری جلد ثانی ص ۹۵۴) جب’’الجامع الصحیح‘‘میں انہوں نے ایسا کیا ہے تو دوسری کتابوں میں تو بطریقِ اولی