کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 343
لہذا ان دلائل و شواہد کی موجودگی میں حضرت حافظ صاحب غازی پوری رحمہ اللہ نے اگر’’امام بخاریؒ کی جرح سکتوا عنہ پر زور دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس جرح کی وجہ سے ابراہیم متروک الحدیث اور اس کی حدیثیں قابل ترک ہیں ‘‘۔تو کوئی نا حق بات نہیں کی ہے کیونکہ ان شواہد سے معلوم ہو گیا کہ ابراہیم ان راویوں میں سے نہیں ہے جن کے حق میں امام بخاری کی اس جرح کی نوعیت شدت کی نہیں ہے بلکہ ان راویوں میں سے ہیں جن کے متعلق حافظ سخاوی اور حافظ عراقی وغیرہ نے تصریح کر دی ہے کہ لا یحتج بحدیثہ ولا یستشھد بہ ولا یعتبر بہ اصل اعتراض اپنی جگہ قائم ہے:اس تحقیق سے واضح ہو گیا کہ حماد بن شعیب اور ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے ان کی جن روایتوں پر محدث مبارک پوری اور حضرت حافظ صاحب غازی پوری نے اعتراضات کئے ہیں وہ بالکل اٹل ہیں اور اپنی جگہ جوں کے تو قائم ہیں۔ان کے جواب میں مولانا مئوی نے اصل مبحث سے ہٹ کر اور دوسرے راویوں کو زیر بحث لا کر مغالطہ دینے اور امام بخاری کی جرحوں کی نسبت تشکیک پیدا کرنے کو تدبیر اختیار کی تھی وہ ان کے مقصد کے لئے کچھ بھی مفید ثابت نہ ہوئی۔ تنبیہ:امام بخاری کی جرح(فیہ نظر)پر بحث کے سلسلے میں مولانا مئوی نے جن چند راویوں کے نام پیش کرکے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ ان کو دوسرے ناقدین نے ثقہ قرار دیا ہے۔اس کے جواب میں ہم مولانا مئوی کی اس افسوس ناک اور خلاف دیانت حرکت کو بھی نمایاں کر سکتے تھے کہ انہوں نے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کیاہے۔یعنی راویوں کے متعلق توثیق کے کلمات تو ذکر کر دیئے ہیں مگر امام بخاری ؒ کے علاوہ دوسرے محدثین اور ناقدین نے ان پر جو جرحیں کی ہیں ان