کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 342
وکل من قیل فیہ من ھذہ المراتب الثلث لا یحتج بحدثہ ولا یستشھد بہ ولا یعتبر بہ انتھی(فتح المغیث للعراقی جلد ۲ ص ۴۲) پس ابن الہمام ہی نہیں بلک حافظ سخاوی اور حافظ عراقی کے بیان کے بموجب بھی محدث مبارک پوری قدس سرہ کا یہ’’طنطنہ‘‘بالکل حق بجانب ہے(اور آپ کے پاس سوائے بھول بھلیوں کے اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے)کہ: فاثر علی ھذالا یحتج بہ ولا یستشھد بہ ولا یعتبر بہ فان فی سندہ حماد بن شعیب وقال البخاری فیہ نظر(قلت وھو مؤید بقول ابن معین فیہ لا یکتب حدیثہ) رہا ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان(چوبیس رکعت تراویح والی مرفوع حدیث کا بنیادی راوی ہے)تو اس کا حال تو حما د بن شعیب سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے۔اس پر صرف امام بخاری ہی نے جرح نہیں کی ہے۔بلکہ باتفاق محد ثین ضعیف اور مجروح ہے۔امام فن جرح و تعدیل یحي بن معین،امام احمد،امام نسائی،ابوداؤد،ترمذی،ابن عدی،ابوحاتم رازی سبھی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔اور صالح بن محمد بغدادی نے کہا ہے ضعیف لا یکتب حدیثہ اس لئے علامہ سیوطی فرماتے ہیں:ومن اتفق ھؤلاء الائمہ علی تضعیفہ لا یحل الاحتجاج بحدیث(جس کی تضعیف پر ایسے ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے)اتنا ہی نہیں بلکہ شعبہ نے اس کی تکذیب کی ہے جس کی نسبت علامہ سیوطی فرماتے ہیں ومن یکذبہ مثل شعبۃ فلا یلتفت الی حدیثہ(یعنی جس راوی کی شعبہ جیسے امام فن حدیث تکذیب کریں اس کی حدیث قابل التفات بھی نہیں ہے چہ جائیکہ حجت یا تائید کے قابل ہو۔