کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 340
(مسلم الثبوت مع شرح بحرالعلوم طبع ہند ص ۴۳۵) اس کا خلاصہ یہ ہے کہ صاحب مسلم الثبوت نے بھی تسلیم کیا ہے کہ امام بخاریؒ کے نزدیک’’فیہ نظر ‘‘اس درجہ کی جرح ہے کہ اس راوی کی حدیث نہ حجت کے قابل ہے اور نہ تقویت کے۔بحرالعلوم نے اس کی وجہ بتائی ہے کہ اس درجہ کے الفاظ جرح راوی کے فسق پر دلالت کرتے ہیں۔اورفاسق کی راویت نہ اسکی صلاحیت رکھتی ہے کہ خود حجت ہو اور نہ اس لائق ہوتی ہے کہ دوسرے کو قوت پہونچائے۔اور نہ اس قابل ہوتی ہے کہ دوسرے سے قوت حاصل کرکے حجت بن جائے۔گویا مولانا مئوی کی لفظوں میں’’وہ کسی کا م کی نہیں ہوتی۔‘‘ الغرض جب یہ دونوں باتیں ثابت اور محقق ہیں۔ایک یہ کہ اس جرح کی یہ شدت واہمیت خاص امام بخاریؒ کی نزدیک ہے۔دوسری یہ کہ امام بخاریؒ کے نزدیک بھی یہ اہمیت اکثری ہے،کلی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔تو اسی سے یہ بات بھی خودہی ثابت ہو جاتی ہے کہ ایسے بھی راوی ہیں جن کے حق میں امام بخاریؒنے’’فیہ نظر‘‘یا ط’’سکتوا عنہ‘‘ہے،مگر دوسرے ناقدین کے نزدیک وہ معتبر ہیں،بلکہ خود امام بخاریؒ کی نزدیک بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ایسا راوی بالکل نا کارہ ہی ہو۔تو پھر چند راویوں کی نا م ذکر کرکے آپ نے اصولاً کونسی نئی بات پیش کی ہے؟اور اس کا حاصل بجز اپنی’’شانِ محدثیت‘‘کے مظاہرہ کے اور کیا ہے؟اگر ان ناموں کی پیش کرنے سے آپکا منشا یہ ہے کہ امام بخاریؒ کی ان جرحوں کی مذکورہ بالا اہمیت وشدت کسی راوی کے حق میں بھی صحیح نہیں ہے تو آپ کا یہ کلیہ بھی غلط ہے۔نہ ایجاب کلی کا دعویٰ صحیح ہے اور نہ سلب کلی کا۔ ایک شبہ کا جواب اگر یہ شبہ ہو کہ پھرحماد بن شعیب کو(جس کی حق میں بخاریؒ نے فیہ نظر کہا ہے)اور ابو شیبہ ابراھیم بن عثمان کو(جس کے حق میں بخاری نے