کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 339
نے کہا ہے۔ مولانا لکھنوی کی مراد اس’’مرتبہ رابعہ‘‘سے وہی مرتبہ رابعہ ہے جس کو وہ ظفر الامانی کے اسی صفحہ مین اُوپر فتح المغیث للسخاوی کے حوالہ سے نقل کر چکے ہیں۔ہم نے ابھی بتایا کہ حافظ سخاوی نے اس مرتبہ(رابعہ)کو بھی ان مراتب میں شمار کیاہے جن کا حکم یہ ہے کہ ان راویوں کے حق میں سکتواعنہ یا فیہ نظر کہتے ہیں۔بقول حافظ سخاوی اس راوی کی حدیث اکثر(ہمیشہ نہیں)ان کے نزدیک نہ حجت کے قابل ہوتی ہے اور استشہاد کے اور نہ اعتبار(اصلاحی)کے۔ (۸) آخر میں اسی سلسلے کا ایک حوالہ(شیخ ابن الہام کے علاوہ دوسرے)ممتاز اور اہل علم کے طبقہ میں مشہور حنفی عالم کا بھی سن لیجیے۔ملا محب اللہ بہاری مسلم الثبوت میں الفاظ جرح کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسوء ھا کذاب وضاع دجال ثم ساقط ذاھب متروک ومنہ(اے ممایلی المرتبۃ الاولی)للبخاری فیہ نظر ثم بعد ھا ردواحدیثہ مطرح لیس بشيء ففی ھذاالمرتبۃ لا حجیۃ ولا تقویۃ(ای لا یصلح الراویہ ھذاالمجروح حجۃ فی نفسہ ولا یتقوی بغیرہ فیصیر حجۃ)ثم بعد ھا ضعیف منکرالحدیث واہٍ ثم فیہ مقال لیس بمرضی لین ویصلح ھذاالاعتبارو المتابعات۔۔۔۔۔۔۔ مولانا بحرالعلوم اس کی شرح میں لکھتے ہیں: وانما صلح ھذاالاعتبار دون الاول لا المراتب الاول تدل علی الفسق والفاسق لا یصلح حجۃ ولا مقویا ولا یصیر بتقویۃ غیرہ حجۃ بحال بخلاف ھذہ فانما لا تدل علی الفسق انتھی