کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 335
حافظ ذہبی عبداللہ بن داؤد الواسطی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: قال ابن عدی ھو ممن لا باس بہ ان شاء اللّٰه بل کل الباس بہ و روایاتہ تشھد بصحۃ ذلک و قد قال البخاری فیہ نظر ولا یقول ھذا الافیمن یتھمہ غالباً انتھی میزان صفحہ ۳۴ جلد ۲ ابن عدی نے کہا ہے کہ عبداللہ بن داؤد ایسے راویوں میں سے ہے جن میں کوئی مضائقہ نہیں حافظ ذہبی اس کی تردید میں کہتے ہیں بلکہ اس میں مضائقہ ہی مضائقہ ہے جیسا کہ اس کی حدیثیں اسی کی شاہد ہیں،نیز بخاری نے اس کے حق میں فیہ نظر کہا ہے اور بخاری یہ لفظ اکثر ایسے ہی راوی کے حق میں بولتے ہیں جس کو وہ متہم قرار دیتے ہیں دیکھئے کثیرا ما اور غالباً کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ حکم کلی نہیں۔اکثری ہے۔اسی کے ساتھ ناقدین اور ماہرین فن محدثین نے ایک قید اور بیان کی ہے وہ یہ کہ ان الفاظ جرح کی یہ شدت اور اہمیت امام بخاری کے نزدیک ہے۔دوسرے محدثین کے نزدیک ان الفاظ کی یہ حیثیت نہیں ہے۔فتح المغیث للسخاوی میں ہے (۱)قلت لانہ لو رعہ قل ان یقول کذاب او وضاع نعور بما یقول کذبہ فلان و رماہ فلان بالکذب فادخالھما(ای قولہ فیہ نظر و سکتوا عنہ فی ھذہ المرتبۃ بالنسبۃ للبخاری خاصۃ مع تجوز امام بخاری اپنے ورع کی وجہ سے بہت کم کسی راوی کو صاف لفظوں میں کذاب یا وضاع کہتے ہیں۔ہاں کبھی یہ کہتے ہیں کہ فلان نے اس کو کاذب کہا ہے یا کذب سے متہم کیاہے۔لہذا فیہ نظر اور سکتوا عنہ کو سخت