کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 334
وجہ سے)ہے وہ کیسے اٹھ جائے گا؟جب کہ کسی ناقد فن نے نہ’’اس کو ثقہ قرار دیا ہے،نہ مصنفین صحاح نے اس کی حدیثیں اپنی کتابوں میں درج کی ہیں نہ کسی نے اس کی حدیثوں کی تحسین کی ہے ‘‘۔یہ عجیب منطق ہے کہ ہم تو کہتے ہیں کہ حماد بن شعیب کو امام بخاری نے متروک اور مجروح کہا ہے اور کسی ناقد فن نے اس کو ثقہ نہیں کہا۔آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں بریدہ بن سفیان تمام بن نجیح اور فلاں فلاں کو تو دوسرے ناقدین نے ثقہ کہا ہے،حالانکہ امام بخاری نے ان پر جرح کی ہے۔انصاف سے کہئے کیا یہ سوال از آزمان جواب از ریسماں کی مثال نہیں؟
اب مولانا مئوی کی ان تینوں باتوں کا جواب سنئے جو(الف)(ب)(ج)کے ذیل میں اوپر نقل کی گئی ہیں:
مذکورہ بالا تینوں باتوں کا جواب:اگر یہ تینوں باتیں بالفرض صحیح اور ثابت بھی ہوں تو اس سے اس اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو امام بخاری کی جرح’’فیہ نظر‘‘کی نسبت محدثین عام اور فقہائے اعلام نے بیان کی ہے،کیونکہ اس کی بنا استقراء پر ہے اور استقراء میں اکثریت کا لحاظ ہوتا ہے،کلیت کا نہیں۔اگر بعض افراد میں تخلف بھی ہو تو اس سے حکم استقرائی کا بطلان لازم نہیں آتا۔چنانچہ محدثین نے اس امر کی تصریح کر دی ہے کہ امام بخاری ؒ کی اس جرح کی شد ت و اہمیت اکثری ہے(کلی نہیں)مندرجہ ذیل عبارتوں پر غور کیجئے:
او فیہ نظر و فلان سکتوا عنہ کثیرا ما یعبر البخاری بھاتین الاخیرتین فیمن ترکوا حدیثہ(فتح المغیث
فیہ نظر اور سکتوا عنہ یہ دونوں الفاظ امام بخاری ؒ اکثر ایسے راوی کے حق میں بولتے ہیں جس کی حدیث کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہے