کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 333
میں بھی کہا ہے کہ اس کی حدیث لوگوں ے چھوڑ دی ہے‘‘۔چنانچہ لسان المیزان جلد ثانی ص ۳۴۸ میں ہے: ونقل ابن الجارود عن البخاری انہ قال فیہ منکر الحدیث و فی موضع اخر ترکوا حدیثہ انتھی … اتنا ہی نہیں بلکہ اسی حوالہ میں موجود ہے کہ امام بخاری نے اس کو منکر الحدیث بھی کہا ہے اور منکر الحدیث کہنے سے ان کی مراد کیا ہے۔اس کو انہوں نے خود ہی بتایا ہے قال ابن القطان قال البخاری کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ انتھی(طبقات الشافیہ للتاج سبکی ص ۹)نیز ظفر الامانی ص ۳۵ میں ہے:قال البخاری کل من قلت فیہ منکر الحدیث لا یحتج بحدیثہ ولا تحل الروایۃ عنہ انتھی یعنی امام بخاری نے فرمایا ہے کہ جس راوی کی نسبت میں نے منکر الحدیث کہا ہے اس سے حدیث روایت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اس کی روایت حجت کے قابل ہے۔ لیجئے اب تو خود مولانا مئوی کے ہی بتائے ہوئے معیار کے مطابق ہم’’یقین‘‘سے کہہ سکتے ہیں کہ امام بخاری کے نزدیک حماد بن شعیب متروک راوی ہے،بلکہ اس سے روایت کرنا’’حلال‘‘نہیں ہے۔بتایئے جس راوی سے روایت کرنا حلال نہ ہو کیا ایسے راوی کی روایت بھی حجت اور استشہاد و اعتبار کے قابل ہو سکتی ہے؟اگر نہیں اور یقینا نہیں(جیسا کہ حافظ سخاویؒ نے فتح المغیث میں لکھا ہے)تو پھر’’حماد بن شعیب کی وجہ سے ‘‘(اس لفظ کو اچھی طرح یاد رکھیے)جس روایت پر محدث مبارک پوری نے’’نہایت شد و مد سے اعتراض کیا ہے‘‘اور جو کچھ لکھا ہے’’بڑے طنطنہ‘‘سے لکھا ہے۔اس کا جواب آپ نے کیا دیا؟حماد بن شعیب کے علاوہ دوسرے راویوں کے بارے میں آپ کا نقض بالفرض اگر صحیح مان بھی لیاجائے تو اس سے حماد بن شعیب والی روایت پر جو اعتراض(حماد بن شعیب کی