کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 332
رجال میں اپنی’’پوری مہارت‘‘کے مظاہرے کا شوق پورا کرنا ہی تھا تو اس کا موقع بھی آپ نکال سکتے تھے۔مثلا یہ کہہ سکتے تھے کہ امام بخاری کی اس جرح کا جو مطلب لوگوں نے بیان کیا ہے و ضابطہ کلیہ کے طور پر صحیح نہیں ہے کیونکہ کتنے راوی ہیں جن کے حق میں امام بخاری نے فیہ نظر کہا ہے مگر …… الخ گفتگو کا یہ معقول علمی و تحقیقی طریقہ چھوڑ کر جو صورت آپ نے اختیار کی ہے یہ تو سراسر گریز اور فرار کی راہ ہے۔اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ آپ ایک دوسری بحث میں ذہنوں کو الجھا کر لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنا چاہتے ہیں اور ان کی ناواقفیت سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور بس۔ اسی سلسلہ میں ایک بات اور سن لیجئے جس کا ذکر مولانا مئوی نے آگے چل کر کیا ہے۔لکھتے ہیں: ’’امام بخاری نے بعض راویوں کی نسبت جزم کے ساتھ صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اس کی حدیث لوگوں نے چھوڑ دی ہے۔ایسے راویوں کی نسبت ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بخاری کے نزدیک متروک ہیں لہذا یسے راویوں کی حدیث بطریقِ اولی متروک اور بقول مولانا عبدالرحمن کسی کام کی نہیں ہو سکتی ‘‘… …(رکعات ص ۷۶) مولانا مئوی شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ حماد بن شعیب کی نسبت امام بخاری نے صرف فیہ نظر ہی کہا ہے(جس کا مطلب خود انہوں نے بتایا ہے کہ کیا ہے۔لوگ اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے اور یہ لوگ جو کہتے ہیں ممکن ہے صحیح ہو،لیکن یقین کے ساتھ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ امام بخاری کا یہی مطلب ہے)(دیکھو رکعات ۷۶)حالانکہ مولانا کا یہ زعم غلط اور ان کی بے خبری پر مبنی ہے۔حماد بن شعیب کی نسبت امام بخاری نے’جزم کے ساتھ صاف لفظوں