کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 330
ہے کہ ؎ فاھرب عن التقلید فھو ضلالۃ ان المقلد فی سبیل الھالک خیر یہ تو مولانا مئوی کی’’شاعری کا جواب انہی کی بحر و تقطیع میں ‘‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں تقلید کا کوئی سوال ہی نہیں بلکہ اولاً تو بات یہ ہے کہ فریق مقابل حنفی ہے اس لئے اس کے جواب میں محدث مبارکپوریؒ نے ایک مسلم الثبوت حنفی ہی عالم کے قول سے ان پر الزام قائم کیا ہے۔ان کے کہنے کامنشا یہ ہے کہ شیخ ابن الہمام کے قول کے بموجب حمادؔ بن شعیب کی روایت نہ حجت کے قابل ہے اور نہ استشہاد کے اور نہ اعتبار کے پھر حنفیہ اس سے حجت کیوں پکڑتے ہیں یا اس سے تائید کس طرح حاصل کرتے ہیں؟ مولانا مئوی بھی خوب سمجھ رہے ہیں کہ شیخ ابن الہام کی نسبت سے تو یہ بات الزاماً ہی پیش کی گئی ہے اسی لئے انہوں نے شیخ ابن الہمام کی عبارت نقل کر کرنے سے گریز کیا ہے اور با ت گول مول کرکے چھوڑ دی ہے چنانچہ لکھتے ہیں: ’’مولانا عبدالرحمن مبارک پورک نے بھی تحفت الاحوذی میں اس روایت پر حماد بن شعیب کی وجہ سے نہایت شد و مد سے اعتراض کیا ہے اور شیخ ابن الہمام کی ایک عبارت نقل کر کے بڑے طنطنہ سے لکھا ہے ……(رکعات ص ۷۳) دیکھئے’’شیخ ابن الہمام کی ایک عبارت ‘‘کہہ کر خاموش ہو گئے۔یہ نہ بتایا کہ آخر وہ’’ایک عبارت‘‘ہے کیا؟اس لئے یہ بتا دینے کے بعد ہر انصاف پسند اہل علم سمجھ لیتا ہے کہ یہ’’طنطنہ‘‘تو دراصل شیخ ابن الہمام ہی کے کلام کی صدائے بازگشت ہے اس کے بعد پھر وہ رنگ کہاں جمتا ہے جو مولانا مئوی جمانا چاہتے ہیں؟