کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 33
تعداد مختار ہے اس لئے کہ ا س کے متعلق کوئی نص نہیں ہے۔بعض نے وترکے علاوہ بیس رکعات کو پسند کیا ہے اور بعض نے 36 کو۔یہی امر قدیم ہے۔اسی پر صدر اوّل کے مسلمانوں کا عمل رہا ہے۔اس کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ(یہ نفلی نماز ہے اس لئے)اس کی کوئی خاص تعداد مقرر نہیں ہے،لیکن اگر کسی کی اقتداء کرنا ضروری ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرنی چاہئیے کیوں کہ آپ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ نے مع وتر گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا ہے۔البتہ آپ کی یہ نماز لمبی ہوتی تھی۔میں اسی کو پسند کرتا ہوں اس لئے کہ اس پر عمل کرنے سے قیام رمضان(تراویح)ا و راتباع سنت نبوی دونوں کا حق ادا ہو جاتا ہے۔(اللہ تعالیٰ نے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی پیروی اور اقتداء کا حکم دیا ہے)جیساکہ ارشاد ہے۔ لقد کان لکم فی رسو ل اللّٰه اسوة حسنة۔ (7) علامہ عینی لکھتے ہیں:۔ فان قلت لم یبن فی الروایات المذکورة عدد الصلوة التی صلاھا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فی تلک اللیالی قلت روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر رضی اللّٰه عنہ قال صلی بنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر انتھی(عمدة القاری ج 3 صفحہ 597 ''یعنی اگر کوئی کہے کہ(بخاری کی)ان روایتوں میں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تراویح پڑھانے کا ذکر ہے،رکعتوں کی تعداد بیان نہیں کی گئی ہے تو اس کے جواب میں مَیں کہوں گا کہ صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان کی روایتوں میں اس کا بیان آ گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(ان راتوں میں)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آٹھ