کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 329
اسی بات کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ حماد بن شعیب کی روایت نہ حجت کے قابل ہے اور نہ استشہاء و اعتبار کے کیوں کہ امام بخاری نے اس کے حق میں’’فیہ نظر‘‘کہا ہے۔مولانا مئوی نے اپنے زعم میں اس پر سخت گرفت کی ہے اور بڑی آن بان کے ساتھ اپنی’’شان محدثیت‘‘کا مظاہرہ فرمایا ہے۔لکھتے ہیں: ’’ہم کو یہ تسلیم ہے کہ بعض علماء اعلام نے بھی بخا ری کی اس جرح کیااہمیت ایسی ہی دکھائی ہے،مگر مولانا عبدالرحمن صاحب سے ہم کو اس جمود کی توقع نہ تھی اس لئے کہ وہ اپنے کو مقلد تو مانتے نہیں،لیکن افسوس کہ ہماری توقع غلط ثابت ہوئی۔اب آیئے ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ کتنے راوی ہیں جن کے حق میں امام بخاری نے فیہ نظر کہا ہے،مگر دوسرے ناقدین نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔اور مصنفین صحاح نے ان کی حدیثیں اپنی کتابوں میں درج کی ہیں اور اتنے ہی پر بس نہیں بلکہ بعض حدیثوں کی تحسین بھی کی ہے۔سنیئے ………(رکعات ص ۷۳) ج: ہم مولانا مئوی کو اس’’ذہانت ‘‘اور’’نکتہ شناسی‘‘کی داد دیتے ہیں کہ انہوں نے حضرت محدث مبارک پوریؒ کی صرف’’غلطی‘‘کا پتہ نہیں لگایا ہے،بلکہ اس’’غلطی‘‘کی وجہ کو بھی وہ بوجھ گئے ہیں اور اس خوشی میں ایسے مدہوش ہوئے کہ ان کو یہ بھی محسوس نہ ہوا کہ جو تیر انہوں نے چلایا ہے اس کا نشانہ وہ خود بن گئے کیونکہ جب بقول مولانا مئوی حضرت محدث مبارک پوریؓ اس’’غلطی‘‘میں اس لئے پڑ گئے کہ انہوں نے’’بعض علما اعلام کی تقلید کی ہے تو بالفاظ دیگر مولانا مئوی نے گویا اہلحدیث کی بات مان لی ہے کہ تقلید اہل علم کی شان نہیں اور یہ انسان کو صحیح راستہ بتانے کے بجائے غلط راہ پر لگا دیتی ہے اور جس نے یہ کہا ہے ٹھیک ہی کہا