کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 326
ثابت بھی ہے۔ علامہ سیوطی تدریب الراوی ص 24 میں لکھتے ہیں: الثالثة مما ینا سب ھذہ المسئلة اصح الاحادیث المقیدة کتولھم اصح شٔ فی الباب کذا وھذا یوجد فی جامع الترمذی کثیر او فی تاریخ البخاری وغیرھما و قال المصنف(یعنی مصنف التقریب وھو الامام النووی)فی الاذکار لا یلزم من ھذہ العبارة صحة الحدیث فانھم یقولون ھذا اصح ما جا فی الباب وان کان ضعیفا و مرادھم ارجحہ او اقلہ ضعفا انتھی یعنی امام ترمذی وغیرہ جب کسی حدیث کی نسبت کہتے ہیں کہ یہ اس باب میں سب سے ''اصح'' ہے تو امام نووی نے لکھا ہے کہ اس عبارت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حدیث صحیح ہو۔اس لئے کہ ایسی عبارت تو محدثین ضعیف حدیث کی نسبت بھی بولتے ہیں۔لہذا ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ حدیث سب سے راجح ہے یا اس میں نسبتاً ضعف کم ہے ''۔ مطلب یہ ہوا کہ اس باب کی سب حدیثیں اگر صحیح ہیں تو اس کو ''اصح'' کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث ان سب میں راجح ہے اور اگر اس باب کی سب حدیثیں ضعیف ہیں تو اس کو ''اصح'' کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں اس باب کی دوسری حدیثوں کی بہ نسبت ضعف کم ہے،اگر چہ ضعیف یہ بھی ہے۔ بتائیے جب '' اصح کا جاء(روی)فی الباب'' کہنے سے حدیث کی صحت لازم نہیں آتی تو صرف ''روی فی الباب عن فلان یا روی عن علی و عمر'' کہنے سے اس کی صحت کیسے لازم آجائے گی؟