کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 324
ہم کو تو اس کے بر خلاف محدثین کے کلام میں یہ ملتا ہے کہ امام ترمذی روایات کی تصحیح اور تحسین کے بارے میں متساہل ہیں۔اس لئے علماء ان کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے اور نہ ان کی تحسین سے دھوکہ کھاتے ہیں۔چنانچہ حافظ ذہبی کثیر بن عبداللہ المزی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: واما الترمذی فروی من حدیثہ الصلح جائز بین المسلمین و صححہ فلھذا لا یعتمد العلماء علی تصحیح الترمذی انتھی(میزان الاعتدال ص 354 ج 2) اور یح بن یمان کے ترجمہ میں ایک حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: حسنہ الترمذی مع ضعف ثلاثة فیہ فلا یغتر تحسین الترمذی(میزان ص 207 ج 3) غور کیجئے محدثین کا فیصلہ تو یہ ہے کہ امام ترمذی اگر کسی روایت کی صحت کی تصریح بھی فرما دیں تو یہ قابل اعتماد نہیں ہے(تاوقتیکہ دوسرے محدثین اور نقاد فن اس کی تائید نہ کریں)مگر مولانا مئوی کی مہارت فن کی داد دیجئے جو فرماتے ہیں کہ امام ترمذی کا تو ''سکوت'' بھی روایت کی صحت کی دلیل ہے،بلکہ اس کے بے شک و شبہ ثابت ہونے کی پر زور شہادت ہے۔ بہ بین تفاوتِ راہ از کجا ست تا بکجا۔ حافظ عماد الدین ابن کثیر المتوفی 774 ھ لکھتے ہیں: وکان الحاکم ابوعبداللّٰه والخطیب البغدادی یسمیان کتاب الترمذی الجامع الصحیح وھذا تساھل منھما فان فیہ احادیث کثیرة منکرة انتھی۔(الباعث الحثیث ص 6) ''یعنی امام حاکم اور خطیب بغدادی امام ترمذی کی کتاب کو ''الجامع الصحیح'' کہتے تھے