کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 322
حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت انس رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔ (5) امام ترمذی باب ما جاء فی النفی کے ذیل میں حدیثیں روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں: والعمل علی ھذا عند اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم منھم ابو بکر وعمر وعلی وابی بن کعب وعبداللّٰه بن مسعود و ابو ذر وغیرھم(ترمذی ص185وص186/1) یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت علی اور حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابوذر وغیرہم بہت سے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کا عمل اس بات پر ہے کہ زانی غیر محصن کو حد لگانے کے بعد ایک سال کے لئے شہر بدر بھی کر دیا جائے۔ اب ہم مولانا مئوی سے پوچھتے ہیں کہ مذکورہ بالا مسائل کے بارے میں فنِ حدیث کے مسلم الثبوت امام ابو عیسیٰ ترمذی کی پرزور شہادت کیوں رد کر دی گئی ہے اور خلفاء راشدین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کی یہ سنتیں احناف کے نزدیک کیوں قابلِ عمل نہیں ہیں؟کیا یہ روایتیں ناقابل اعتبار ہوتیں تو امام ترمذی ان کو اس طرح ذکر کرتے ہرگز نہیں۔کیا ان مسائل کی بابت یہ بات سوچنے کی نہیں ہے کہ روایات کے صحت و سقم کا علم یا ان کے نقد کا سلیقہ امام ترمذی کو زیادہ حاصل ہے یا مولانا حبیب الرحمن اعظمی مئوی اور ان کے جیسے دوسرے حنفیوں کو؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ بات وہ ہے جو علامہ ابن حزم نے محلی جلد خامس کے ص 277،278 پر کہی ہے کہ: ان احتجاجھم یعمر انما ھو حیث وافق شھواتھم لا حیث