کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 320
عیسیٰ ترمذی نے ترمذی مین بیس کے عمل کے لیے اس روایت کا حوالہ ''رادی'' کے لفظ کی ساتھ بھی نہیں دیا ہے۔کیا یہ روایت کسی درجہ میں بھی قابل ذکرہوتی تو امام ترمذی اس کو اس طرح نظر انداز کر دیتے؟سوچنے کی بات ہے کہ روایات کے صحت وسقم کا علم یا ان کے نقد کا سلیقہ امام ترمذی کو زیادہ حاصل ہے یا مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی مئوی کو؟ نیز مولانا اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ جامع ترمذی میں پچاسوں مسئلے ایسے موجود ہیں کہ امام ترمذی صحابہ کرام سے ان کاثبوت بے تامل تسلیم کرتے ہیں مگر حضراتِ حنفیہ ان میں سے ایک کو بھی نہیں مانتے۔ہم ذیل میں مثال کے طور پر صرف چند وہ مسئلے ذکر کرتے ہیں جو حضرت عمر اور حضرت علی سے ترمذی میں منقول ہیں اور امام ترمذی ان حضرات سے ان کا ثبوت بے تامل تسلیم کرتے ہیں لیکن احناف کا مذہب ان کے خلاف ہے۔مثلاً (1) امام ترمذی باب ما جاء فی زکوٰة مال الیتیم کے ذیل میں حدیث پیش کرکے لکھتے ہیں: وقد اختلف اھل العلم فی ھذا الباب فرای غیر واحد من اصحاب النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فی مال الیتم زکوٰة منھم عمر و علی وعائشہ وابن عمر(ترمذی ص93/1) یعنی حضرت عمرو حضرت علی وحضرت عائشہ وحضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم یتیم کے مال میں زکوة کے وجوب کے قائل ہیں۔ (2) امام ترمذی باب ما جاء لا نکاح الا بولی کے ذیل میں حدیث پیش کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں: والعمل فی ہذاالباب علی حدیث النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم