کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 32
(3) بحر الرائق کے حوالہ سے ابن نجیم کا قول گزر چکا کہ شیخ ابن ہمام کی بات کو انہوں نے بھی بلاانکار نقل کیا ہے او رمان لیا ہے کہ وقد ثبت ان ذالک کان احدی عشرة رکعة بالوتر کما ثبت فی الصحیحین من حدیث عائشة۔ (4) طحطاوی نے بھی شرح در مختار میں یہی لکھا ہے جس کا حوالہ پہلے گزر چکا (5) امداد الفتاح میں ہے: قال الکمال کونہا عشرین رکعة سنة الخلفاء الراشدین والذی فعلہ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم بالجماعة احدی عشرة بالوتر۔(مفاتیح لاسرار التراویح ص9) (6) نفحات رشیدی میں ہے: واختلفوا فی عدد رکعاتہا التی یقوم بہا الناس فی رمضان ما المختار منہا اذ لا نص فیہا فاختار بعضہم عشرین رکعة سوی الوتر واستحسن بعضہم ستا و ثلثین رکعة والوترثلث رکعات وہو الامر القدیم الذی کان علیہ الصدر الاول والذی اقول بہ فی ذالک ان لا توقیت فیہ فان کان لابد من الاقتد فالاقتداء برسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فی ذالک فانہ ثبت عنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم انہ ما زاد علی احدی عشرة رکعة بالوتر شیئا لا فی رمضان ولا فی غیرہ الا انہ کان یطولہا فہذا ہو الذی اختارہ للجمع بین قیام رمضان والاقتداء برسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال اللّٰه تعالیٰ لقد کان لکم فی رسول اللّٰه اسوة حسنة انتہٰی(حوالہ مذکور و مسک الختام مترجم ص288) یعنی تراویح کی رکعتوں کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ اس کی گنتی