کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 318
دنوں میں وتر میں دعقنوت نہیں پڑھتے تھے)اگر یہ اصول صحیح ہے کہ شاگردوں کا عمل حضرت علیکے عمل کے لیے زبردست دلیل اور قرینہ ہے تو اس اصول کی بنا پر دوسری ہی روایت صحیح ہوگی،کیونکہ ان کے شاگردوں کا عمل اسی پر ہے۔ پس اگر سچ مچ حضرت علی کی سنت پر عمل کرنے کا داعیہ دل میں موجود ہے تو اعلان کردو کہ وتر میں دعا قنوت پورے سال نہیں بلکہ صرف رمضان کے نصف آخر میں پڑھنا چاہیے۔ قولہ:اور ابوالبختری المتوفی 83ھ جو حضرت علی کے مستقر خلافت کوفہ کے باشندہ اور ان کے شاگردوں(ابو عبدالرحمٰن سلمی وحارث وغیرہما)کے شاگرد اور صحبت یافتہ ہیں،وہ بھی بیس تراویح اور تین وتر پڑھتے تھے۔(رکعات ص83) ج: اس روایت کے لیے حوالہ مولانا مئوی نے تعلیق آثار السنن کا دیا ہے،مگر''دیا نتداری ''دیکھیے کہ اس روایت کو پیش کر کے مولانا مئوی نے اس پر جو جرح کی ہے اسکو مئوی صاحب نے بالکل حذف کردیا۔گویا جتنا حصہ اپنے مطلب کے موافق تھا اس کو لے لیا اور جتنا حصہ اپنے مطلب کے خلاف تھا اس کو چھوڑ دیا۔انصاف سے کہیے!کیا ''محدثانہ ''شان تقدس کو یہ بات زیب دیتی ہے؟ تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو اس روایت کے متعلق مولانا نیموی لکھتے ہیں:قلت فیہ خلف لااعرف من ھو انتھی(تعلیق آثارالسنن ص57ج2)یعنی اس کی سند میں ایک راوی کا نام خلف ہے۔اس کو میں نہیں جانتا کہ کون ہے۔ مولانا مئوی کا حق تھا کہ وہ پہلے ا س شبہ کا جواب دیتے اور رجال میں اپنی ''پوری مہارت ''اور ''کامل غوروفکر '' کے زور سے بتا دیتے کہ یہاں ''خلف '' سے