کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 317
ان باتوں کا جو جواب آپ دیں گے وہی جواب ہمارا بھی سمجھیے۔ قولہ:نیز سوبن غفلہ(جو حضرت علی وابن مسعودکے اصحاب خاص میں تھے)اور حارث اعور اور علی بن ربیعہ(یہ دونوں بھی حضرت علی کے شاگرد تھے)بھی بیس رکعتیں پڑھاتے تھے۔(ص =) ج:اس روایت کے لیے مولانا نے بہیقیاور آثار السنن مع تعلیق کا حوالہ دیا ہے لیکن حارث اعور کے بیس پڑ ھنے کی روایت نہ تو بہیقی میں ہے اور نہ آثار السنن میں ہے۔اور نہ اس کی تعلیق میں ہے اور رکعات تراویح ص5 پر آپ نے اثر کے لیے ''مصنف''کا حوالہ دیا ہے۔یہ حوالہ بھی محض رنگ محفل جمانے کے لیے ہے۔مصنف کا نسخہ مولانا نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔اسی لیے نہ صفحے کا ذکر ہے نہ جلد کا۔ہاں یہی حارث اعور ہیں جن کے متعلق قیام اللیل للمروزی میں منقول ہے کہ ''وہ اپنی قوم کی امامت کرتے تھے تب وتر میں دعقنوت پڑھتے تھے ''(شروع کے پندرہ دنوں میں نہیں پڑھتے تھے)روایت کے الفاظ یہ ہیں: وعن الحرث انہ کان یؤم قومہ وکان لایقنت الا فی خمس عشرةیبقین من رمضان انتھی۔(ص122) حضرت علی کے متعلق امام مروزی نے اس بابن میں دو روایتیں ذکر کی ہیں۔پہلی روایت تو یہ بیان کی ہے کہ وہ وتر میں دعقنوت پورے رمضان میں پڑھتے تھے اور غیر رمضان میں بھی پڑھتے تھے۔اس کے بعد دوسری روایت یہ ذکرکی ہے: وعن علی انہ کان یقنت فی النصف الاخر من رمضان انتھی۔(قیام الیل ص132) حضرت علی رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے(یعنی شروع کے پندرہ