کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 316
کیا ہے۔کیونکہ اس روایت کا وہ حصہ حنفی مذہب کے خلاف ہے۔قیام اللیل ص 92 میں یہ روایت نکال کر دیکھئے۔اس میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں۔و یقنتون فی النصف الاخر و یختمون القرآن مرتین انتھی(یعنی وتر میں دعاء قنوت رمضان کے صرف نصف آخر میں پڑھتے تھے اور قرآن پاک دو مرتبہ ختم کر دیتے تھے)یہ دونوں باتیں حنفی مذہب کے خلاف ہیں۔چنانچہ ہدایہ میں ہے ویقنت فی جمیع السنة خلافا للشافعی فی غیر النصف الاخیر من رمضان(باب الصلوة الوتر)''یعنی تراویح میں قرات قرآن کی کوئی خاص مقدار مذکور نہیں،لیکن اکثر مشائخ کے نزدیک قرآن کو ایک مرتبہ ختم کرنا سنت ہے۔'' مولانا مئوی کی ان چھپی ہوئی ''چالاکیوں'' کے چہرے سے نقاب اٹھا دینے کے بعد اب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ حضرت علی کے اصحاب خاص اور شاگردوں کا بیس رکعتیں پڑھنا بقول آپکے''زبردست دلیل ہے اس بات کی کہ انہوں نے یقینا بیس کا حکم دیا تھا''۔(رکعات ص83)تو اسی روایت میں جن دوسرے عملوں کا ذکر ہے ان کے متعلق بھی تو یہ زبردست دلیل ہے اس بات کی کہ حضرت علینے انکا بھی یقینا حکم دیا تھا؟مثلاً(الف)آخری عشرہ میں بیس سے زیادہ رکعتیں جماعت سے ادا کرنا(مگر حنفی مذہب میں یہ مکروہ ہے بلکہ بعض کے قول کے مطابق تو بدعت ضلالت ہے۔جس کا حوالہ اس کتاب کے شروع میں ہم بتا چکے ہیں) (ب) رمضان کے صرف نصف آخر میں قنوت پڑھنا(مگر احناف رمضان بھر بلکہ رمضان کے علاوہ بھی ہمیشہ قنوت پڑھنے کے قائل ہیں) (ج) تراویح میں دو مرتبہ قرآن مجید ختم کرنا(مگر مشائخ حنفیہ صرف ایک مرتبہ ختم کرنے کو سنت کہتے ہیں)