کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 315
ج: یہی روایت مولانا مئوی نے اپنی کتاب(رکعات تراو یح)کے ص 5 پربھی پیش کی ہے وہاں اس روایت کے ذکر کرنے میں انہوں نے اختصار کے بجائے کسی قدر تطویل سے کام لیا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں: ''اور عبدالرحمن بن ابی بکرہ و سعید بن ابی الحسن و عمران عبد ی 83 ھ سے قبل بصرہ کی جامع مسجد میں پانچ ترویحے یعنی بیس رکعتیں پڑھایا کرتے تھے اور آخری عشرہ میں ایک ترویحہ کا اضافہ کر دیتے تھے ''۔(قیام اللیل ص 92) یہ نہ سمجھئے کہ ''اختصار'' اور ''تطویل'' کا یہ عمل مولانا سے محض اتفاقاً وقوع میں آ گیا ہے بلکہ مولانا مئوی نے قصداً ایسا کیا ہے اور اس عمل کے پیچھے ایک خاص مصلحت اور جذبہ کارفرما ہے۔بات یہ ہے کہ جہاں یہ دعوی کیا ہے کہ بیس یا بیس سے زائد رکعتوں پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے وہاں اس روایت کے پیش کرنے میں تطویل سے کام لیا اور اس موقع پر اس بات کو چھپانے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ ''آخری عشرہ میں ایک ترویحہ(یعنی چار رکعتوں)کا اضافہ کر دیتے تھے ''۔لیکن جہاں یہ دعوی کیا کہ حضرت علی کے شاگرد بیس رکعتیں حضرت علی کے حکم سے پڑھتے تھے،وہاں اختصار سے کام لیا ہے۔یعنی ایک ترویحہ کے اضافہ والا ٹکڑا وہاں سے حذف کر دیا کیونکہ اس ٹکڑے سے اس دعوے کی تردید ہو جاتی ہے کہ حضرت علی کے شاگردوں کا عمل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق تھا۔اس لئے کہ حضرت علی کا ''حکم'' تو صرف بیس رکعتوں کا تھا اور یہاں آخری عشرہ میں عمل چوبیس رکعتوں پر ہو رہا تھا۔ اسی ''دور اندیشی'' کی بنا پر مولانا مئوی نے اس روایت کے بعض حصوں کو تو ''اختصار'' اور ''تطویل'' کے ان دونوں موقعوں میں سے کہیں بھی ذکر نہیں