کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 314
نے سنن کبری میں بلا سند ذکر کیا ہے(ان کے نزدیک اس میں قوت ہو توہو مگر)دوسرے اہل علم کے نزدیک وہ قابل قبول اسی وقت ہو گا جب کہ اس کی سند معلوم ہو جائے اور اس کے سب راویوں کی عدالت ثابت ہو جائے جس طریق سے اس کی سند کا علم ہوا ہے اس میں عبداللہ بن قیس کی بابت دوسرے اہل علم نے صراحت کر دی ہے کہ معلوم نہیں یہ کون ہے اس لئے جب تک اس کے اوصاف موجبہ للقبول کا پتہ نہیں چلے گا یہ روایت ہم پر حجت نہیں ہو سکتی اور نہ اس پر عمل کیا جائے گا۔ رہی ابو عبدالرحمن سلمی کی روایت جو بطریق حماد بن شعیب عن عطاء بن السائب منقول ہے تو یہ بھی امام بیہقی ہی کے بتائے ہوئے اصول کی بنا پر مقبول نہیں کیونکہ اس کے دو دو راوی مجروح ہیں اور امام بیہقی نے بصراحت لکھا ہے کہ مجروحین کی روایت مقبول نہیں ہے چنانچہ لکھتے ہیں: واذاکنا لا تقبل روایة المجھولین فکیف نقبل روایة المجروحین لا نقبل من الحدیث الامارواہ من ثبتت عدالتہ وعرف بالصدق رواتہ۔(کتاب القراء ةص107) یعنی جب ہم مجہول راویوں کی روایت نقل نہیں کرتے(حالانکہ ان کے عادل و ضابطہ ہونے کا بھی احتمال ہے)تو ایسے راویوں کی روایت کیسے قبول کر لیں گے جن کا مجروح ہونا معلوم ہے۔ہم وہی حدیث قبول کریں گے جس کے راویوں کی عدالت ثابت اور صداقت معروف ہو۔ قولہ:اسی طرح عبدالرحمن بن ابی بکر ہ اور سعید بن ابوالحسن حضرت علی کے شاگرد تھے اور یہ حضرات بھی پانچ تر ویحے یعنی بیس رکعتیں پڑھاتے تھے …(رکعات ص 82)۔