کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 313
چنانچہ لکھتے ہیں: واھل العلم مختلفون فیما یجرح بہ الراوی فلا بد مین تسمیتہ لیوقف علی حالہ فتستبین عدالتہ او جرحہ عند من بلغہ خبرہ من اھل العلم(کتاب القرن ص 106) یعنی محدثین اسباب جرح کے بارے میں مختلف نظریہ رکھتے ہیں۔اس لئے راوی کا نام بتانا ضروری ہے تاکہ اس کے حال سے واقفیت ہو جائے اور اس کا عادل یا مجروح ہونا دوسرے اہل علم پر بھی واضح ہو جائے۔یہی امام بیہقی اسی کتاب القراة کے ص 104 پر لکھتے ہیں: واصل مذھبنا انا لا نقبل خبر المجہولین حتی یعرفوا بالشرائط التی توجب قبول خبرھم قال الشافعی رحمہ اللّٰه لم یکلف اللّٰه احدا ان باخذ دینہ عن من لا یعرفہ فان جھل منھم واحد وقت عن روایتہ حتی یعرف بما وصفت فیقبل خبرہ او بخلافہ فیرد خبرہ انتھی یعنی ہمارے مذہب کا قاعدہ یہ ہے کہ ہم مجہول راویوں کی خبر قبول نہیں کرتے تاوقت یہ کہ ان شرائط کے ساتھ ان کا حال معلوم نہ ہو جائے جن کی بنا پر ان کی روایت قابل قبول ہو سکے۔امام شافعی نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے کسی کو اس کا حکم نہیں دیا ہے کہ وہ دین کی بات ایسے شخص سے حاصل کرے جس کو وہ جانتا نہ ہو۔اگر کوئی راوی مجہول ہو تو اس کی روایت کے بارے میں توقف کیا جائے گا تحقیق کے بعد اگر اس کے اوصاف قابل قبول ثابت ہوئے تو اس کی روایت مقبول ہو گی ورنہ رد کر دی جائے گی۔ امام بیہقی کے اس اصول کے بموجب شتیر بن شکل کا وہ اثر جس کو انہوں