کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 312
یعنی بیہقی نے اس کی سند ذکر نہیں کی ہے شاید یہ اسی عبداللہ بن قیس کے طریق سے مروی ہے جس کی بابت معلوم ہو چکا کہ پتہ نہیں یہ کون ہے۔ اگر کہا جائے کہاامام بیہقی نے اس اثر کو نقل کر کے فرمایا ہے وفی ذلک قوة(یعنی اس میں قوت ہے)اور اس کی قوت کے ثبوت میں انہوں نے عبدالرحمن سلمی کی روایت پیش کی ہے(جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے)۔ تو اس کے جواب میں پہلی گذارش تو یہ ہے کہ شتیر بن شکل کا یہ اثر مولانا شوق نیموی نے بھی تعلیق آثار السنن میں بیہقی کے حوالے سے نقل کیا ہے مگر اس کے آخر میں امام بیہقی کا یہ فقرہ(وفی ذلک قوة)انہوں نے نقل نہیں کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بیہقی کی یہ بات مولانا نیموی کے نزدیک اتنی کمزور ہے کہ انہوں نے اس کو قابل ذکر بھی نہیں سمجھا۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے ثبوت میں امام بیہقی نے ابوعبدالرحمن سلمی کی جو روایت پیش کی ہے اس کے ایک راوی حماد بن شعیب کو انہوں نے خود بھی ضعیف قرار دیا اور دوسرے بہت سے محدثین کے اقوال اس کی جرح کی بابت نقل کر دیئے اور نقل کرنے کے بعد ان جرحوں پر کوئی رد و انکار نہیں کیا۔لہذا مولانا مئوی کے اصول کے مطابق یہ دلیل ہے اس بات کی کہ مولانا نیموی کو ان جرحوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور یہ روایت ان کے نزدیک ضعیف ہے۔ پس مولانا مئوی پہلے خود اپنے علامہ نیموی سے نپٹ لیں اس کے بعد بیہقی کی یہ بات ہمارے سامنے پیش کریں گے۔ دوسری گذارش یہ ہے کہ امام بیہقی نے خود یہ اصول پیش کیا ہے کہ جب تک حدیث کے راویوں کے نام نہ معلوم ہوں اور ان کی عدالت نہ ثابت ہو وہ روایت مقبول نہیں ہو سکتی۔نہ مجہولین کی روایت معتبر ہے اور نہ مجروحین کی۔