کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 311
ہے یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایسی روایت کو حجت بنا کر پیش کرنا اندھیر نہیں تو کیا ہے؟ مولانا نیموی نے ابن ابی شیبہ کے حوالے سے جو سند اس روایت کی نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شتیر بن شکل سے اس کو عبداللہ بن قیس نے روایت کیا ہے اور عبداللہ بن قیس سے ابواسحق نے روایت کیا ہے۔ان دونوں کے متعلق مولانا نیموی لکھتے ہیں:قلت عبداللّٰه بن قیس لا یدری من ھو تفرد عنہ ابو اسحق انتھی تعلیق آثار(السنن ص 75 جلد 2)یعنی اس عبداللہ بن قیس کے متعلق معلوم نہیں کہ یہ کون ہے اور اس سے روایت کرنے میں ابواسحق متفرد ہے(کوئی دوسرا راوی اس کا متابع اور مؤید نہیں ہے) جب بقول مولانا نیموی اس اثر کے راوی عبداللہ بن قیس کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے کہ کون ہے اور صرف ابواسحق نے اس سے روایت لیا ہے تو محدثین کی اصطلاح میں یہ مجہول العین ہوا اور مجہول العین کی روایت کا ناقابل احتجاج ہونا مولانا مئوی کو بھی تسلیم ہے اور جمہور محدثین کے نزدیک بھی اس کا مردود ہونا پہلے معلوم ہو چکا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ اثر شتیر بن شکل سے عبداللہ بن قیس نے لفظ عن کے ساتھ روایت کیا ہے۔اس لئے جب تک ان دونوں کی ملاقات و سماع یا کم از کم معاصرت کتب رجال سے ثابت نہ ہو جائے یہ روایت مقبول نہیں ہو سکتی جیسا کہ پہلے گذر چکا۔ یہ اثر بیہقی میں بلا سند مذکور ہے۔اس کی بابت مولانا نیموی لکھتے ہیں: قلت البیہقی لم یذکر اسنادہ ولعلہ من طریق عبداللّٰه بن قیس المذکور واللّٰه اعلم(تعلیق آثار السنن)