کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 310
کے مسلک وعمل کے لیے قرینہ اور دلیل بنایا جا سکتا ہے؟ان کے اختلافات تواتنے وسیع اور مستحکم ہیں کہ اب مستقل چار مذہب بن گئے ہیں۔اور ان چاروں کو حق ہونے کی سند بھی دی گئی ہے۔اسی طرح ائمہ حنفیہ میں امام ابو یوسف اور امام محمد دونون امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں،مگر کون کہ سکتا ہے کہ ان دونوں کا کوئی عمل زبردست قرینہ ہے اس کا کہ امام ابو حنیفہ کا بھی یہی عمل تھا؟ایسی مثالوں کا استقصاء کیا جائے تو ایک طویل فہرست مرتب ہو سکتی ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اہل عمل کے نزدیک یہ ایسی بدیہی بات ہے کہ اس کے بارے میں دو رائیں ہو ہی نہیں سکتیں۔اس لیے بالفرض اگر حضرت علیکے بعض شاگردوں نے بیس رکعتیں پڑھی بھی ہوں تو اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت علی کا یہ حکم تھا یاان کا عمل اور طریقہ بھی یہی تھا۔ اس اجمالی جواب کے بعد اب مولانا مئوی کی ہر دلیل ا ور اس کا جواب الگ الگ بھی عرض کیا جا سکتا ہے۔ قولہ:چنانچہ شتیربن شکل جن کی نسبت بیہقی میں ہے کہ وہ حضرت علی کے اصحاب خاص میں تھے۔بیس رکعتیں پڑھاتے تھے …(رکعات ص82) ج: مولانا مئوی کو آثار السنن میں یہ روایت تو نظر آ گئی،لیکن یہ نظر نہ آیا کہ اس روایت پر مولانا شوق نیموی مرحوم نے ساتھ ہی جرح اور کلام بھی کر دیا ہے۔نیموی مرحوم نے تو اپنی دیانت کا ثبوت دیا کہ اس جرح کو چھپانے کی کوشش نہیں اور نہ جواب میں کوئی دھاندلی دکھائی،مگر فاضل مئوی جو ''رجال میں پوری مہارت'' رکھتے ہیں انہوں نے تو وہ حرکت کی ہے کہ دیانت سر پیٹ کر رہ گئی ہے۔نہ اس جرح کا کوئی جواب دیں جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ جرح ان کو تسلیم