کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 308
ج: مولانا مئوی نے رجال میں اپنی پوری مہارت دکھانے کے لیے،یا یہ کہیے کہ کامل غوروفکر کرنے کا ثبوت دینے کے کیے اس بات پر بڑا زور لگایا ہے کہ تقریب وغیرہ رجال کی کتابوں میں جس ابوالحسناء کا ذکر ہے اور جس کے حق میں حافظ ابن حجر نے مجہول اور حافظ ذہبی نے لا یعرف کی تصریح کر دی ہے۔وہ اور یہ ابوالحسناء جو حضرت علی کے زیر بحث اثر کا راوی ہے اور جس میں ہم گفتگو کر رہے ہیں۔یہ دونوں دوابوالحسناء ہیں اور ان دونوں کو دو الگ الگ راوی ثابت کرنے کا منشا دراصل یہ ہے کہ کسی طرح حا فظ ابن حجر اور حافظ ذہبی کی جرحوں سے جان چھوٹ جائے۔لیکن یہاں تو اِدھر ٹانکا ادھر اُدھڑا والا معاملہ ہے۔مولانا کی جان جس ضیق میں پھنس گئی ہے۔اب اس سے نکلنا مشکل ہے۔اگر بالفرض ہم یہ مان بھی لیں کہ یہ دو ابوالحسناء ہیں تب بھی حافظ صاحب کا اصل شبہ اپنی جگہ جون کا توں قائم رہے گا۔اس لیے کہ جب حضرت علی کے اثر کے راوی ابوالحسناء کی روایت لفظ عن اور ان کے ساتھ ہے تو جب تک ابو سعد بقال اور عمروبن قیس کے ساتھ اور اسی طرح حضرت علیکے ساتھ اس ملاقات وسماع یا کم ازکم معاصرت کتب رجال سے آپ اپنی پوری مہارت کے زور سے یا کامل غوروفکر کرکے ثابت نہ کر دیں گے اس وقت تک اس اثر کے منقطع ہونے کا شبہ قطعاً باقی رہے گا اور اس کا کوئی جواب آپ کے پاس نہیں ہے۔ولو کان بعضکم لبعض ظھیرا۔ رہا اس ابوالحسناء کا مجہول ہونا،چونکہ لفظ عن اور ان کی صورت میں روایت میں انقطاع کا احتمال موجود ہے۔اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ روایت بالواسطہ ہے یا بلاواسطہ ہے۔اگر بالواسطہ ہے تو معلوم نہیں کتنے راویوں کا واسطہ ہے۔جب یہ معلوم نہیں تو اس روایت کی بنا پر نہ ابوالحسناء کا کوئی طبقہ متعین کیا جا سکتا ہے اور نہ راوی و مروی عنہ کے مابین سماع ولقاء کا زمانہ بتایا جا سکتا ہے اور نہ بلاواسطہ