کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 307
اخذبالمعنے الاخص وھووجودصفة الردفالحق مع امام الحرمین انتھی۔(شرح نخیہ ص 71حاشیہ ص5) یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حنفیہ کے نزدیک صیحح مذہب یہ ہے کہ مستور راوی کی حدیث اسی طرح مردود اور نا قابل حجت ہے جس طرح فاسق راویت۔علامہ ابن الہام کی التحریر اور اس کی شرح ابن امیر الحاج میں ہے:(ومثلہ)ای الفاسق(المستور)وھو من لم تعرف عدالة ولا فسقہ(فی الصیحہح)فلایکون خبرہ حجة حتی تظھر(عدالةص247/2)حسام الدین الاخسیکثی لکھتے ہیں:والمستور کالفاسق لا یکون خبرہ حجة فی باب الحدیث مالم یظھر عدالتہ الا فی الصدر الاول(حسامی ص73) پس ابو الحسناء بالفرض اگر مستور بھی ہو تو حنفیہ کے اصول کی رو سے اس کی روایت ہرگز حجت کے قابل نہیں ہے بلکہ اس کا حکم وہی ہے جو فاسق راوی کا ہے۔ خیر یہ تو ضمنی باتیں تھیں،اصل مقصد یہ ہے کہ حافظ ابن الصلاح،امام نووی،علامہ سیوطی،حافظ ابن کثیر جیسے اکابر کی تفصیل وبیان کے بموجب جب ابوالحسناء محدثین کی اصطلاح مین مستور نہیں ہے تو جس طرح بجائے خود اس کی روایت قابل قبول نہیں ہو سکتی۔لہذا مولانا مئوی کا زعم باطل ہے کہ ابو عبدالرحمٰن سلمی کی متابعت کی وجہ سے یہ روایت مقبول ہے۔ قولہ:حافظ صاحب نے ابو الحسناء کی روایت کے منقطع ہونے کا بھی شبہ ظاہر کیا ہے...... رجال میں پوری مہارت نہ ہونے کی وجہ سے یا کامل غور وفکر نہ کرنے سے حافظ صاحب کو یہ شبہ ہو گیاہے ورنہ یہ دونوں دوابوالحسناء ہیں.......... رکعات ص 79و80