کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 306
امام الحرمین کی شخصی رائے کو جمہور کا مذہب بتانا اور اس کو حافظ ابن حجرکی طرف منسوب کردینا کہ انہوں نے ایسا کہا ہے............کیا یہ سب حرکتیں حافظ کے کلام میں تحریف اور کھلی ہوئی خیانت نہیں ہیں؟ جی چاہتا ہے کہ اس موقع پر ہم مولانا مئوی کو ان کی یہ بات یاددلائیں کہ آپ نے اپنی کتاب کے صفحہ32 پر اسی شرح نخبہ کی ایک عبارت اور انہی حافظ ابن حجرکے ایک کلام کے متعلق محدث مبارک پوری قدس سرہ پربالکل غلط الزام لگاتے ہوئے لکھ مارا کہ اس سے بڑھ کر تعجب کی بات جو مولاناکی شانِ تقدس اور عالمانہ احتیاط کے بالکل منافی ہے۔یہ ہے کہ انہوں نے ابن حجر کا کلام بالکل ادھورا نقل کیا لیکن اب فرمایئے کہ ہم آپ کے دامن تقدس کی نسبت کیا رائے قائم کریں؟ جامی!چہ لاف می زنی ازپاک دامنی بر دامنِ تو ایں ہمہ داغ شراب چیست اس کے بعد ہم آپ کو اصل بحث کے سلسلے میں یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ حافظ نے مستور کی روایت کی بابت جو توقف کا مسلک اختیار کیا ہے تو حافظ ہی کے بیان کے مطابق یہ بھی ردہی کے حکم میں ہے۔چناچہ نخبہ کے محشی مولانا عبداللہ ٹوٹکی(جنہوں نے کتاب کے آخر میں خود اپنا تعارف ان لفظوں میں کرایا ہے وانا العبد الاثیم محمد المدعوبعبداللّٰه التونکی توطنا والاحمدی تلمذاوالحنفی مذہبا)حافظ ابن حجر کی اس تحقیق کی شرح میں لکھتے ہیں: اقول حاصل ھذا التحقیق انماہو التوقف عن قبول خبر المستور و التوقف عن القبول ھو الرد بالمعنی الا عم کما سبق من المصنف فی اوائل الکتاب فالحق مع الجمہور وان