کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 305
حجرکے کلام میں کیا کیا تصرفات کیے ہیں اورکس طرح امانت ودیانت کاخون کیا ہے۔اس کی پوری حقیقت اسی وقت معلوم ہو سکتی ہے جب حافظ کا پورا کلام سامنے ہو۔اس لیے ہم پوری عبارت یہاں نقل کرتے ہیں۔حافظ لکھتے ہیں: وقدقبل روایتہ جماعةبغیرقیدوردھاالجمہوروالتحقیق ان روایتةالمستورونحوہ ممافیہ الاحتمال لایطلق القول بردھاولابقبولہابل ہی موقوفةالیٰ استبانةحالہ کماجزم بہ امام الحرمین انتھی(شرح نخبہ ص71) ''یعنی مستور کی روایت کو ایک جماعت نے بغیر کسی قید کے قبول کیا ہے اورجمہورنے اس روایت کو رد کر دیا ہے۔اور تحقیق یہ ہے کہ مستور اور اس قسم کے راوی جن کی عدالت محتمل ہو۔ان کی روایت نہ مطلقاًمقبول ہے اور نہ مطلقاً مردود،بلکہ راوی کا حال ظاہرہونے تک اس کے ردّوقبول کے معاملہ میں توقف کیا جاے گا۔جیسا کہ امام الحرمین نے اس پر جزم کیا ہے۔'' حنفی مذہب کے طالب علمو!شرح نخبہ کوئی نایاب کتاب نہیں ہے۔اگر تمہارے پاس نہیں تو کم از کم تمہارے مدرسہ میں تو ضرور موجود ہو گی۔اس میں یہ مقام نکال کر دیکھو کہ حافظ ابن حجرنے مستورکی روایت کی بابت جمہورکا مذہب یہ بتایا ے کہہ'ردھاالجمہر،،' و(جمہور نے اس کو رد کر دیاہے)یا یہ بتایا ہے کہ نہ مقبول ہے نہ مردود،بلکہ حال ظاہر ہونے تک اس میں توقف کیا جائے گا۔توقف کو تو حافظنے صرف امام الحرمین(ابوالمعالی شافعی)کا مذہب بتایا ہے اور یہی ان کی ذاتی تحقیق میں بھی راحج ہے،لیکن اس کو جمہور کا مذہب انہوں نے ہرگزنہیں بتایاہے۔تو پھر حافظ کے کلام کو بالکل ادھورانقل کرنا اور''ردھاالجمہور''کی صراحت کو اڑا دینا اور اس کے بجائے حافظ کی ذاتی تحقیق اور