کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 303
ان سب عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مجہول کی تین قسمیں ہیں ایک مجہول العین جس سے صرف ایک شخص نے روایت کیا ہو۔اکثر علماء اہلحدیث اور غیر اہلحدیث کے نزدیک اس کی روایت غیر مقببول ہے۔دوسرا وہ جس کی عدالت و ثقاہت ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے نا معلوم ہو۔ہاں اس کی ذات دوعا دلوں کی روایت کی وجہ سے معلوم ہو۔اس کی روایت بھی جماہیر محدثین کے نزدیک مردود ہے۔تیسرا وہ ہے جو باطنی حالات کے اعتبار سے تو مجہول العدالة ہے مگر جہاں تک اس کے ظاہر حالات کا علم ہے ان کے اعتبار سے وہ عادل ہے اسی کو ''مستور'' کہتے ہیں اس کی روایت بھی بعض کے نزدیک مقبول ہے۔جمہور کے نزدیک نہیں۔ محدثین کی ان تصریحات کے بموجب ابو الحسناء کو ''مستور'' تو کسی حال میں بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس لئے کہ نہ اس کے ظاہری حالات معلوم ہیں اور نہ باطنی۔ہاں اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ اس سے دو عالموں نے روایت لی ہے تو اس تقدیر پر وہ ''مجہول العدالة ظاہر او باطنا'' قرار پائے گا اور ایسے راوی کی روایت بھی جمہور محدثین کے قول کی بنا پر مردود اور نا مقبول ہے۔ مولانا مئوی کو ''نخبہ'' کی مختصر عبارت سے یا تو دھوکہ ہوا ہے یا تجاہل سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اس کے اختصار سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔حافظ لکھتے ہیں: وانفرد راوا واحد بالروایة عنہ فھو مجھول العین او ان روی عنہ اثنان فصاعد او لم یوثق فھو مجہول الحال وھو المستور(شرح نخبہ ص 70 حافظ نے اختصار سے کام لیتے ہوئے مجہول الحال کی دونوں قسموں کو اکٹھا ہی بیان کیا اور دونوں کا نام مستور رکھ دیا۔حالانکہ درحقیقت یہاں دو قسمیں ہیں