کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 301
ساتھ ہیں اور یہ معلوم ہو چکا کہ اس سے لقاء و سماع تو کیا معاصرت کا ثبوت بھی نہیں ہوتا۔لہذا ''شاگردی'' اور ''روایت'' کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ مولانا مئوی کی یہ بات بھی یکسر نا واقفیت پر مبنی ہے کہ ''اصطلاح محدثین میں وہ مستور ہے''۔سنیے حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں: الثامنة فی روایة المجہول وھو فی غرضنا ھھنا اقسام حدھا المجھول العدالة من حیث الظاہر والباطن جمیعاً و روایتہ غیر مقبولة عن الجماہیر علی ما نبھنا علیہ اولا الثانی المجہول الذی جھلت عدالتہ الباطنة وھو عدل فی الظاہر وھو المستور فقد قال بعض امتنا المستور من یکون عدلا فی الظاہر ولا نعرف عدالة باطنہ فھذا المجہول یحتج بروایتہ بعض من رد روایة الاول الثالث المجہول العین(مقدمہ النوع الثالث و العشرون ص 42 تقریب اور اس کی شرح تدریب میں ہے۔ (السادسة روایة مجہول العدالة ظاہر او باطنا)مع کو نہ معرف العین بروایة عدلین عنہ(لا تقبل عند الجماہیر)…(روایة المستور وھو عدل الظاہر خفی الباطن)ای مجہول العدالة باطنا(یحتج بھا بعض من رد الاول وھو قول بعض المثافعیین)…(واما مجہول العین)وھو القسم الثالث من اقسام المجہول فقد بقبلہ بعض من یقبل مجہول العدالة)و ردہ ھو الصحیح الذی علیہ اکثر العلماء من اھل الحدیث وغیرہم انتھی(تدریب الراوی ص 15