کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 299
بن قیس کی بالاتصال روایت کا ثبوت نہیں ہوا۔اور جب روایت کا ثبوت نہیں ہوا تو اب ابوالحسنا کے مجہول ہونے میں کیا شک رہا۔ ایسے راوی کو ''مستور'' کہنا اصول سے نا واقفیت پر مبنی ہے۔تفصیل آگے آ رہی ہے۔ قولہ:یہاں تو ابوالحسناء کو مجہول قرار دے کر(درآنحالیکہ وہ قطعاً مجہول نہیں ہے اور اس کو مجہول کہنا بے خبر ی ہے)اس کی روایت کو مولانا عبدالرحمن اور حافظ صاحب دونوں نے ناقابلِ استدلال کہہ دیا … مگر تحقیق کلا م میں عبداللہ بن عمرو بن الحارث کی روایت اپنی تائید میں پیش کی۔حالانکہ وہ قطعاً مجہول ہے …(رکعات ص 77) ج:ابھی مولانا مئوی نے یہ اصول پیش کیا ہے کہ ''دو شخصوں کی روایت کے بعد کوئی راوی مجہول نہیں رہ سکتا '' مگر چند ہی سطروں کے بعد اپنے اس اصول کو بھول گئے یا ان کو معلوم نہیں ہے کہ امام بیہقی کے بیان کے مطابق عبداللہ بن عمرو بن الحارث سے روایت کرنے والے دو شخص ہیں،شعیب بن ابی حمزہ اور اسحق بن عبداللہ بن ابی فردہ(دیکھو کتا ب القراة للبیہقی ص 41)تو اب بقول آپ کے دو شخصوں کی روایت کے بعد وہ مجہول کہاں رہا؟اس لئے اس کو مجہول کہنا یقینا بے خبری ہے۔رہا ابو الحسناء کا معاملہ تو ہم نے ثابت کر دیا کہ وہ مجہول ہے اور ایسا مجہول ہے کہ نہ اس کی شخصیت کا پتہ ہے اور نہ حالات کا۔اسی لئے مولانا شوق نیموی نے بھی ابوالحسناء نسبت لکھا ہے لا یعرف(یعنی کچھ نہیں معلوم کہ یہ کون ہے اور کیسا ہے)مولانا نیموی کے پورے الفاظ یہ ہیں۔قلت مدار ھذا الاثر علی ابی الحسناء وھو لا یعرف انتھی(تعلیق آثار السنن ص 50 جلد 2)یعنی اس اثر کا دارومدار ابوالحسنا پر ہے اور وہ نامعلوم ہے۔