کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 293
کا لفظ ہے اور ''عن'' کے متعلق اصول حدیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ اس لفظ کے ساتھ روایت کرنے کی صورت میں راوی اور مروی عنہ کے مابین لقاء اور عدم لقاء سماع اور عدم سماع دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:ثم عن و نحوھا من الصیغ المحتملة للسماع والاجازة وعدم السماع ایضا(شرح نخبہ ص 96)یعنی ادائے حدیث کے لئے عند المحدثین جو صیغے اور الفاظ معتبر ہیں ان میں ''عن'' اور اس جیسے الفاظ کا درجہ سب سے نیچے ہے۔اور یہ سماع اور عدم سماع،اجازت اور عدم اجازت دونوں کا احتمال رکھتے ہیں '' اسی لئے اس لفظ کو ''سماع'' پر محمول کرنے کے لے یہ شرط ہے کہ راوی اور مروی عنہ دونوں معاصر یعنی ایک زمانے کے ہوں۔حافظ ہی لکھتے ہیں: وعنعنة المعاصر محمولة علی السماع بخلاف غیر المعاصر فانھا تکون مرسلة او منقطعة فشرط حملھا علی السماع ثبوت المعاصرة الا من المدلس فانھا لیست محمولة علی السماع انتھی(شرح نخبہ ص 89) ''یعنی معاصر کا عنعنہ سماع پر محمول ہوتا ہے غیر معاصر کا نہیں اس کا عنعنہ تو مرسل یا منقطع ہو گا۔لہذا کسی راوی کے عنعنہ کو سماع پر محمول کرنے کے لئے معاصرت کا ثبوت شرط ہے۔ہاں اگر راوی مدلس ہو تو(معاصرت کے ثبوت کے باوجود)اس کا عنعنہ سماع پر محمول نہیں ہو گا''۔ اس عبارت کا لفظ ثبوت المعاصرة(معاصرت کا ثبوت شرط ہے)اچھی طرح یاد رکھیے گا۔اسی سلسلے میں حافظ ہی کی ایک اور عبارت آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔لکھتے ہیں: ومن المھم فی ذلک عند المحدثین معرفة طبقات الرواة