کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 292
کلام کیا ہے وہ بھی غلط ہے۔اس لئے کہ ایک کلام ان کا یہ ہے کہ اس کی سند میں ابو سعد بقال راوی ہے جو ثقہ بھی نہیں ہے ا ور مدلس بھی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ صاحب کو معلوم ہے کہ ابو سعد بقال کی متابعت(تائید)عمرو بن قیس نے کی ہے اور اصول حدیث میں مصرع ہے کہ مدلس یا ضعیف راوی کی متابعت کوئی دوسرا مدلس یا ضعیف بھی کر دے تو اس کی روایت مقبول ہو جاتی ہے۔لہذا ابو سعد کی وجہ سے اس کی اسناد کی تضعیف اصولاً غلط ہے۔ ہم یہ کہنے کی جرات تو نہیں کر سکتے کہ اصول کا ایسا موٹا مسئلہ بھی حافظ صاحب کو معلوم نہ تھا،لیکن مشکل یہ ہے کہ سب جاننے کے باوجود انہوں نے خواہ مخواہ ابوسعد پر کلام اور اس کی وجہ سے سند کو ضعیف قرار دیا۔اس کو کیا کہا جائے(رکعات ص 78)۔ ج:سبحان اللہ کیا معصومانہ انداس ہے۔الفاظ کے استعمال میں بظاہر کتنی احتیاط برتی گئی ہے،مگر کیا اپنے ''پندارِ علمی'' کے مظاہرے اور حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کی ''تجہیل'' میں کوئی کسر چھوڑی گئی ہے؟بقول شخصے ع کہنے کو کیا نہیں کہا کچھ بھی مگر کہا نہیں۔ مولانا!کسی بات کا جان لینا ہی کمال نہیں ہے بلکہ اس کی گہرائیوں تک پہنچنا اور حقیقت شناس ہونا کمال ہے۔اصول کا یہ ''موٹا مسئلہ'' آپ جانتے ضرور ہوں گے مگر اس کی گہرائیوں سے بے خبراور حقیقت سے نا آشنا ہیں۔آپ کا یہ علم مخض سطحی اور طالب علمانہ ہے۔آئیے ہم آپ کو اس کی گہرائیوں تک پہونچائیں سب سے پہلے اس بات پر غور کیجئے کہ ابو سعد بقال اور عمرو بن قیس جو بظاہر ابوالحسناء کے شاگر معلوم ہوتے ہیں ان دونوں کی سندوں میں عن ابی الحسناء