کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 290
(رکعات 72) ج:گویا مولانا مئوی صاحب کو تسلیم ہے کہ بلا شبہ دونوں راوی ضعیف اور مجروح ہیں اور محدثین نے ان دونوں پر جو جرحیں کیں ہیں وہ سب مقبول اور معتبر ہیں پھر جان بوجھ کر ایسے راویوں کی روایت کو حنفی مذہب کی دلیل میں پیش کرنے کا منشا اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ ''دلیلوں'' کی تعداد بڑھا کر ناواقف عوام کو مغالطہ میں ڈالا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنتِ صحیحہ ثابتہ سے لوگوں کو بلا وجہ برگشتہ کیا جائے۔ایسے جمود اور تعصب سے اللہ کی پناہ۔ ان دونوں راویوں کا ضعف تسلیم کرنے کے بعد مولانا مئوی نے ابوالحسنا کے طریق کا حوالہ دیا ہے حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ حافظ صاحب نے اس طریق کا بھی ناقابل اعتماد ہونا ثابت کر دیا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں: ''معہذا جو اس روایت کی سند لکھی ہے اس میں ایک راوی ابوالحسناء ہیں جو حضرت علی سے روایت کرنے والے قرار دیئے گئے ہیں۔معلوم نہیں یہ ابوالحسناء کون بزرگ ہیں اگر یہ وہی ابوالحسناء ہیں جو تقریب التہذیب میں مذکور ہیں تو ان کو تو حضرت علی سے لقاء ہی نہیں ہے۔کیونکہ یہ ابوالحسناء طبقہ سابعہ سے ہیں جو کبار اتباعِ تابعین کا طبقہ ہے جس کو کسی صحابی سے لقا نہیں ہے۔چہ جائیکہ حضرت علی سے لقا ہو اور جب حضرت علی سے ان کی لقاء ثابت نہیں ہوئی تو یہ روایت بھی بوجہ منقطع السند ہونے کے صحیح نہ ٹھہری۔علاوہ بریں یہ ابوالحسناء مجہول راوی بھی ہیں۔تو اس وجہ سے بھی یہ روایة صحیح ثابت نہ ہوئی''(رکعات التراویح طبع کلکتہ ص 22) یہ گفتگو تو حافظ صاحب نے ابوالحسنا ء کی اس روایت پر فرمائی ہے جو