کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 289
وہ اچھی ہیں۔(میزان الاعتدال ص 197 ج 2 اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبہ،سفیان ثوری اور حماد بن زید یہی تین اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے عطاء بن سائب سے ان کے تغیر حافظہ سے قبل سنا ہے۔لیکن حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں ان کے علاوہ بھی کچھ ایسے راویوں کے نام پیش کئے ہیں جنہوں نے عطاء مذکور سے ان کے تغیر حافظہ سے قبل روایت لی ہے مگر ان ناموں میں بھی حماد بن شعیب کا ذکر نہیں ہے اس ثابت سے ہوتا ہے کہ ماہرین فن محدثین کے تتبع کے مطابق حماد بن شعیب ان راویوں میں سے نہیں ہے جنہوں نے عطاء بن سائب سے ان کے حافظہ کے تغیر سے قبل سنا ہے لہذا یا تو یہ کہا جائے کہ اس نے تغیر حافظہ کے بعد سنا ہے تو اس صورت میں یہ روایت بالجرم مردود قرار پائے گی یا یہ کہا جائے کہ اس کے بارے میں توقف کیاجائے گا تب بھی عملاً یہ رد ہی کے حکم میں ہو گی۔بہر حال یہ روایت استناد و احتجاج کے قابل نہیں ہے۔ یہ جرح تو اس تقدیر پر ہے کہ حماد بن شعیب ثقہ ہوتے لیکن جبکہ وہ خود بھی مجروح اور ضعیف ہیں۔ایسی حالت میں تو اس روایت کے ضعیف ہونے میں شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں باقی رہتی۔اور درجہ اعتبار سے وہ بالکل ساقط ہو جاتی ہے۔ مولانا مئوی اس جرح کے جواب میں لکھتے ہیں: ''حافظ صاحب نے حضرت علی کے اثر بروایت ابوعبدالرحمن پر جماد بن شعیب اور عطاء بن السائب کی وجہ سے کلام کیا ہے اور ان کو معلوم ہے کہ حضرت علی کے اس اثر کا یہی ایک طریق نہیں ہے،بلکہ دوسرا طریق ابولحسناء کا بھی ہے اور اس میں مذکورہ بالا دونوں راوی نہیں ہیں …