کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 285
واما الموقوف فما اضیف الی الصحابی قولاً لہ او فعلاً او نحوہ ستصلا کان او منقطعا …… واما المرسل فھو عند الفقھاء واصحاب الاموال والخطیب الحافظ ابی بکر البغدادی و جماعة من المحدثین ما انقطع اسنادہ علی ای وجہ کان انقطاعہ فھو عندھم بمعنی المنقطع وقال جماعات من المحدثین او اکثرھم لا یسمی مرسلا الاما اخبر فیہ التابعی عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم انتھی۔(مقدمہ شرح مسلم ص 17) امام شافعی فرماتے ہیں: المنقطع مختلف فمن شاھد اصحاب رسول اللّٰه من التابعین فحدث حدیثا منقطعا عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم اعتبر علیہ بامور الخ(الرسالہ بشرح احمد محمد شاکر ص 461) غور کیجئے یہ عبارتیں صاف اس بات پر د لالت کر رہی ہیں کہ اکثر محدثین کی معروف اصطلاح کی رو سے ''مرسل'' وہ حدیث ہے جس میں تابعی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کرے۔امام شافعی نے اگرچہ اس کو ''منقطع'' میں داخل کیا ہے مگر بہر حال اسی ''مرفوع منقطع'' کی مقبولیت کے لئے انہوں نے اپنے مخصوص شرائط بیان کئے ہیں۔''موقوف منقطع'' کے لئے نہیں۔لہذا آثار مذکورہ(جو سب کے سب موقوف منقطع ہیں)کی بابت امام شافعی کی ''تصریح'' کا بار بار حوالہ دینا بالکل بے محل بلکہ بے خبری کی بات ہے۔ان کی ''تصریح'' کے بموجب '' تو ان میں سے ایک بھی مقبول اور قابل حجت نہیں ہے خواہ وہ یزید بن رومان کا اثر ہو یا دوسرے آثار کیونکہ امام شافعی کی بیان کردہ شرطوں کا تعلق اس نوعیت کی روایات کے ساتھ ہے ہی نہیں۔